Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

خاناں دے خان پروہنے

 خاناں دے خان پروہنے 

تحریر:ضیاءصابری

خاناں دے خان پروہنے

ہمارا معاشرہ کرپشن، رشوت ستانی اور بدعنوانی کے میدان میں جس مقام پر پہنچ چکا ہے اس کا تصور کر کے ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہماری قوم اپنا وقار کھو چکی ہے۔ بیرون ملک جانے والے تارکین وطن یا سیاح لوگوں سے اس ملک کے باشندے تیسرے درجے کے انسانوں کا سا سلوک کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس لئے کہ ہم نے اپنے آپ کو اخلاقی طور پر اس قدر دیوالیہ کر لیا ہے کہ ہمارے اندر اپنے آباو¿ اجداد کی کوئی قدر نظر نہیں آتی۔

واپڈا ہو یا انکم ٹیکس، کسٹم ہو یا پولیس، ریلوے ہو یا قرضے دینے والے ادارے، الغرض ہمارے ملک کے کسی بھی محکمہ میں جائز کام کروانے کے لئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے۔ ناجائز تو پھر ناجائز ہے۔ کہ وہ بھی ہو جاتا ہے البتہ اس کے لئے رشوت کا ریٹ بڑھ جاتا ہے۔ ذرا غور کریں تو کئی سرکاری افسران اور نچلے ملازم ایسے نظر آئیں گے جن کے ٹھاٹھ باٹھ اور روزمرہ کے اخراجات ان کی تنخواہوں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ راقم ایسے کئی سرکاری ملازمین کو جانتا ہے جن کے ایک دن کے اخراجات ان کی ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نیم سرکاری ادارے کا اہل کار جس کی ماہانہ تنخواہ تقریباً پچیس ہزار روپے ہو گی مگر اس نے کئی حج کئے ہیں اور منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا مالک ہے۔ اس کے روزمرہ کے اخراجات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس شخص کی آمدنی کسی بھی طرح ایک لاکھ ماہانہ سے کم نہیں۔اسی طرح ایک بلدیاتی ادارے کے انجینئر ہیں۔ انہوں نے اپنے ذاتی ملازم جو رکھے ہیں وہ اپنی تنخواہ کے برابر رقم ان ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات پر خرچ کر دیتا ہے۔ کار بھی رکھی ہوئی ہے اور گھر کے اخراجات بھی شاہانہ ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور مثال واپڈا کے ایک لائن مین کی پیش کرتا ہوں جن کی تنخواہ بیس پچیس ہزار ہو گی۔ مگر وہ نئی یاماہا موٹر سائیکل پر گھومتا ہے اور اس کی موٹر سائیکل کا خرچہ ہی اس کی تنخواہ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح کی ہزاروں مثالیں آپکے ارد گرد پھیلی ہوئی ہیں۔

حکومت پاکستان نے ان لٹیروں کو نکیل ڈالنے کیلئے ایک محکمہ انٹی کرپشن قائم کر رکھا ہے۔ جس کا سیٹ اپ پولیس سے ملتا جلتا ہے مگر اس محکمے کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ رشوت لیتے ہوئے پکڑے جاو¿ اور رشوت دے کر چھوٹ جاو¿۔ ویسے بھی ظاہر ہے کہ محکمہ انٹی کرپشن بھی سرکاری محکمہ ہے اور اس کے اہلکار بھی سرکاری ملازم ہیں اور جن کے خلاف اس محکمہ نے ایکشن لینا ہے وہ بھی سرکاری ملازم ہیں۔ مثل مشہور ہے۔

”خاناں دے خان پروہنے“

جس کا مطلب ہے کہ بڑے لوگوں کے مہمان بھی بڑے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جاگیر دار کی دوستی جاگیر دار سے، افسر کی دوستی افسر سے، تاجر کی دوستی تاجر سے اور غریب کی دوستی غریب سے ہی ہوتی ہے۔ اس طرح محکمہ انٹی کرپشن بھی اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے ذرا سوچتا ہے اور اگر کبھی مجبوری میں ایکشن لینا پڑ ہی جائے تو پھر کوئی نہ کوئی بڑا افسر درمیان میں پڑ کر معاملہ ٹھنڈا کروا دیتا ہے۔ 

کیا ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی ہے جن کا رہن سہن اور روزمرہ اخراجات ان کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہیں۔ ہر طرف ایسے لوگ بھرے پڑے ہیں مگر کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ انہوں نے یہ دولت کہاں سے لی ہے۔ بلکہ الٹا وہ معزز لوگ کہلاتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کو پکڑنے کے لئے اور ان سے حساب کتاب لینے کیلئے حکومت نے جو محکمہ بنا رکھا ہے وہ کسی کام کا نہیں ہے اور نہ ہی وہ موثر ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ احتساب بیورو اس سلسلے میں از خود ایکشن لیتے ہوئے کاروائی کرے اور ایسے لوگوں کو بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لائے دوسری طرف عوام کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی حالت کو بدلنے کیلئے اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے ایسے لوگوں کی نشاندہی احتساب بیورو کو کریں تاکہ ان کا احتساب ہو سکے۔ ورنہ خاناں دے پروہنے خان بنتے رہیں گے اور آپ اور ہم اسی طرح سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور رہیں گے۔ ملک کی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کرنا ہماری قومی ذمہ داری بھی ہے اور ہمارا فرض بھی۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے