Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

منفی سوچ، عدم برداشت اور خون کی ارزانی

 آپریشن تھیٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ضیاءصابری

منفی سوچ، عدم برداشت اور خون کی ارزانی

منفی سوچ، عدم برداشت اور خون کی ارزانی


ہمارے معاشرے میں آجکل عدم برداشت کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہم مرنے مارنے پر تل جاتے ہیںاور اس کے نتیجہ میں انسانی خون اتنا ارزاں ہو گیا ہے کہ ہم اسے بہانے میں ذرا بھی نہیں سوچتے کہ آخر ہم کس وجہ سے اپنے بھائی یا دوسرے انسان کا خون بہا رہے ہیں اگر تھوڑا سا ٹھنڈے دماغ سے غور کریں تو اس کے پیچھے وجہ کوئی بھی نظر نہیں آتی کسی معمولی سی بات پر جھگڑا اتنا بڑھ جاتا ہے کہ نتیجہ خونریزی تک پہنچ جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں کی کچھ اخباری اطلاعات کے مطابق چند واقعات یہاں نقل کرنے کی کوشش کررہا ہوں ان پر غور کریں تو ہمیں اپنے اخلاقی دیوالیہ پن پر ماتم کرنا چاہئے اور سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟؟

”جوہر ٹاو¿ن میں ایک گھر کے کچن میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجہ میں خاتون خانہ ہلاک اور اس کا خاوند اور چار سالہ بیٹی شدید زخمی ہوگئے۔ خاوند کو مشکوک جان کر گرفتار کر لیا گیا“۔ اس واقعہ میں پتہ چلا ہے کہ خاتون خانہ کچن میں کھانا تیا رکررہی تھی کہ گیس لیکج کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے خاتون جھلس کر ہلاک ہو گئی اور اسے بچاتے ہوئے اس کا خاوند اور چار سالہ بیٹی بھی جھلس گئی۔ بظاہر یہ ایک حادثہ ہے لیکن اس حادثہ میں صاحب خانہ کی گرفتاری کس بنیاد پر ہوئی جبکہ وہ خود بھی زخمی ہو گیا تھا۔ ہمارے معاشرے میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ کچن میں آگ لگتی ہے تو اس کا الزام گھر والوں پر لگایا جاتا ہے کہ ساس یا خاوند نے متاثرہ خاتون کو آگ لگا کر ہلاک کردیا۔ اگر یہ الزام درست ہے تو ساس یا خاوند کو سوچنا چاہئے کہ آخر اس معصوم عورت نے ایسا کیا گناہ کر دیا ہے کہ اسے جان سے مارے بغیر کوئی اور حل نہیں اور اگر یہ الزام غلط ہے تو متاثرہ خاتون کے والدین کو ایسا بے ہودہ الزام لگاتے ہوئے سوچنا چاہئے کہ جس گھر میں انہوں نے اپنی بیٹی دے رکھی ہے کیا ان پر اتنا بھی اعتماد نہیں کہ وہ اپنی عزت کی حفاظت کریں گے اور ان کی بیٹی کے محافظ بنیں گے۔یہ سار ا شاخسانہ ہماری منفی سوچ کا ہے۔ جو ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتی اور ایسے کیسوں میں 99 فیصد آخر کا صلح ہی ہوتی ہے تو اس قسم کی بیہودگی کرنے سے پہلے ہم کیوں نہیں سوچتے؟؟؟

ایک دوسرے واقعہ میں پھول نگر کے علاقے مدینہ کالونی میں کسی بات پر جھگڑا ہونے پر میاں بیوی نے ایک دوسرے پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ بیوی ہلاک، خاوند شدید زخمی،معلوم ہوا ہے کہ میاں بیوی میں اکثر جھگڑا رہتا تھا۔تیسرے واقعے میں گرین ٹاو¿ن کے علاقہ میں نوجوان نے فائرنگ کر کے اپنے سوتیلے بھائی کو ہلاک اور باپ کو زخمی کردیا۔ نوجوان کے اپنے باپ کی دوسری شادی کرنے کا رنج تھا۔

ان تمام واقعات پر غور کریں ۔ کیا ان کے پیچھے کوئی ایسی بڑی وجہ نظر آرہی ہے جس بناءپر اپنے پیاروں کے خون سے ہاتھ رنگ لئے جائیں؟ کسی بھی واقعہ میں ایسی کوئی وجہ نہیں ہے اور اگر بالفرض کوئی بڑی وجہ ہو بھی تو پھر بھی کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے انسان کا خون بہائے، مگر یہاں ہمارے رویے ایسے ہو گئے ہیں کہ ہم معمولی سے معمولی بات کو برداشت نہیں کرتے اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ کہ یہ رویے اوررحجان شروع سے ہی ہمار ی قوم میں موجود تھا؟ نہیں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہم آپس مین پیار ومحبت کے ساتھ رہتے تھے۔ محلوں میں لوگ اس طرح رہتے تھے جیسے سگے بھائی رہتے ہیں۔ ہمسایوں میں ایسا اتفاق اور محبت تھی کہ سگے رشتہ داروں کا گمان ہوتا تھا۔ پھر اب ایسا کیا ہوگیا کہ ہمارے رویے بدل گئے۔ ہماری سوچیں منفی ہو گئیں۔ ہم میں برداشت عنقا ہو گئی آخر کچھ تو ایسا ہوا ہے نا۔۔۔۔۔ کہ جس سے ہم اپنے اصل کو بھول گئے ہیں اور ایک دوسرے کا بات بے بات خون بہانا شروع کردیا ہے۔ آئیے ذرا غور کریں کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔

انسانی نفسیات کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب کسی بھی انسان کے ساتھ زیادتی حد سے گز جائے تو وہ باغی ہوجاتا ہے اور دوسرے انسانوں سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا بدلہ لینے لگتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی کا شاخسانہ ہے۔ عدم برداشت کا رویہ اس وقت ہی پیدا ہوتا ہے جب انسان کو انصاف نہیں ملتا۔ اس کے بنیادی حقوق پر پہرے بٹھا دئیے جاتے ہیںاور اسے اپنا کوئی مسیحا نظر نہیں آتا۔ آج ہمارے ملک میں جو حالات ہیں جسے ہم ترقی کا نام دے رہے ہیں۔ اس ترقی نے ہمارے اندر عدم برداشت اور منفی سوچ کو پروان چڑھایا ہے۔ جب ملک کے ادنیٰ سے ادنیٰ شخص سے لے کر اعلیٰ ترین شخصیت تک ہر ایک کرپٹ ہوجائے، جب کسی کو اس کے بنیادی حقوق بھی میسر نہ ہوں، جب اسے کہیں سے انصاف ملنے کی توقع نہ ہو، جب پورا پورا دن سخت محنت کر کے بھی مزدور اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہ کھلا سکے، جب کوئی شخص اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہ سکے، جب حکمران عوام کے ووٹ لے کر اقتدار میں آنے کے بعد عوام کو بھول جائیں، اور ان کا استحصال کرکے اپنے بنک بیلنس بنانے لگیں، تو پھر خودکشیاں، قتل و غارت، عدم برداشت اور جرائم میں اضافہ ناگزیر ہو جاتا ہے، انسانی اقدار کی پامالی عام ہونے لگے تو معاشرے میں منفی رحجان ہی پلتے ہیں۔ نظام ڈاکوبلاوجہ ہی ڈاکو نہیں بن گیا تھا،یا وہ شوقیہ ڈاکو نہیں بنا تھا، پھولن دیوی کسی تفریح کے لئے ڈاکو نہیں بنی تھی، علاوہ ازیں اور بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ کسی بھی ڈاکو، چور لٹیرے، طوائف یا کسی بھی دوسرے جرائم پیشہ فرد کے پس منظر میں جا کر دیکھیں تو اس میں بیشتر کسی نہ کسی ظالم کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اگر آج ہمارے حکمران خود کو عوام کا خادم سمجھنے لگیںاور حضرت عمر فاروقؓ کی طرز حکمرانی کو اپنا لیں تو معاشرے میں ایسے رحجان پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر آج ہم اسلامی تعلیمات پر اپنی زندگی گزارنا شروع کردیں تو یہ سارا معاشرہ اخوت و بھائی چارے کا عملی نمونہ پیش کرنے لگے، اگر ہم ایک دوسرے سے زیادتی کرنا بند کردیں، ایک دوسرے کا حق کھانا چھوڑ دیں، اپنے فرائض پوری ایمانداری سے ادا کرنا شروع کردیں، اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا شروع کردیں، رزق حلال کھانا شروع کردیں، دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا شروع کردیں، دوسروں کا اپنا مسلمان بھائی خیال کرنا شروع کردیں، معاف کرنا اور معافی مانگنا شروع کردیں تو ہمارا معاشرہ امن و آشتی، اخوت و بھائی چارے کی ایک مثال بن سکتا ہے۔ آئیے ذرا ہم اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہم دوسرے کے حقوق کا خیال کر رہے ہیں؟ اگر نہیں تو ابھی سے اپنی منفی سوچ کو بدل کر مثبت سوچ کو اپنا لیں ۔ دوسے کی غلطی کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھ لیں تو پھر کبھی بھی انسانی خون اتنا ارزاں نہیں ہوگا جتنا آج ہمارے معاشرے میں ہوچکا ہے۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات!!!


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے