آپریشن تھیٹر۔۔۔۔۔ضیاءصابری
ہربل فارماسیوٹیکل اداروں کے خلاف کریک ڈاؤن
پنجاب میں آج کل ہربل دوا ساز اداروں کی شامت آئی ہوئی ہے اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن چل رہا ہے کئی ادارے بند ہوچکے ہیں اور جو چھوٹے ادارے رہ گئے ہیں وہ بھی آخری سانسیں لے رہے ہیں، پنجاب حکومت کا صحت عامہ کے حوالے سے جعلی ادویات اور ان کی تیاری کے خلاف ایکشن لینا بہت اچھا اقدام ہے اور یہ صحت عامہ اور عوام کی فلاح کیلئے ناگزیر اقدام ہے۔ لیکن یہاں چند حقائق کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے تاکہ مفاد عامہ میں کئے گئے اس اقدام کے صحیح نتائج برآمد ہوسکیں۔
ذرا غورکریں تو بڑے بڑے ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں سے روزانہ کئی مریض میت کی صورت میں گھر واپس آتے ہیں گو کہ موت کا ایک وقت معین ہے لیکن یہ وقت کسی ہسپتال میں ہی کیوں آتا ہے کسی حکیم کی دکان پر کیوں نہیں آتا۔ کسی محلے کے ڈاکٹر کے کلینک میں کیوں نہیں آتا۔ اگر تھوڑا سا غور کریں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایلوپیتھک طریقہ علاج میں بہت ساری خامیاں ہیں اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ میڈیکل سائنس ترقی کرتے کرتے بہت آگے نکل گئی ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ ایلو پیتھک طریقہ علاج میں دواو¿ں کو مارکیٹ میں لانے کے بعد اس کے مضر اثرات سامنے آتے ہیں اور جب کسی دوا کے مضر اثرات بہت زیادہ سامنے آنے لگتے ہیں تو اس دوا کو بند کردیا جاتا ہے۔ جیسا کہ Novelgin گروپ کو بند کردیا گیا اس وقت بھی مارکیٹ میں بیسیوں ادویات ایسی زیر استعمال ہیں جن کو عام زبان میں Steroid کہا جاتا ہے اور یہ ہر ڈاکٹر مانتا ہے کہ ان کے استعمال سے انسانی زندگی پر بہت مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ Dexamethasone کے مضر اثرات سے کون واقف نہیں لیکن شاید ہی کوئی ڈاکٹر ایسا ہو جو مریض کو دوا دیتے وقت Dexa کی گولی خوراک میں شامل نہ کرتا ہو یا اس کا انجکشن نہ لگاتا ہو کیونکہ اس سے مریض فوری طور پر ہٹا کٹا ہوجاتا ہے اور ان کی Patient Ratio بڑھ جاتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل پنجاب کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ میں ایک واقعہ ہوا تھا کہ سینکڑوں مریضوں کو اس ادارہ سے جو دوائیں دی گئیں وہ Expired تھیں اور اس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں بھی ہو گئی تھیں ہلاکتوں کی تعداد بڑھنے پر ہسپتال انتظامیہ نے جب غور کیا تو ان دواو¿ں کا معاملہ سامنے آیا اور پھر ان دواو¿ں کو تلف بھی کیا اور جن مریضوں کو وہ دوائیں دی جا چکی تھیں ان کو فون پر رابطہ کر کے دوا استعمال نہ کرنے کی ہدایت بھی کی۔ اس ساری بحث کا مقصد یہ ہے کہ مندرجہ بالا واقعات کبھی بھی کسی ہربل دوا کے استعمال سے رونما نہیں ہوتے اس کے باوجود ہربل ادویات کو جعلی قرار دے کر ان کے خلاف کریک ڈاو¿ن کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ یہاں تصویر کا ایک اور رخ دیکھنا بھی ضروری ہے۔
ہمارے ملک کی آبادی کا کم از کم 80 فیصد حصہ ان نفوس پر مشتمل ہے جو روزانہ کی بنیاد پر اپنی روزی کماتے ہیں اور روزی بھی اتنی ہوتی ہے کہ وہ اس دن کی دال روٹی مشکل سے چلاتے ہیں اگر ان میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو وہ کسی سرکاری ہسپتال سے رجوع کرے تو اول تو اس دن کی دیہاڑی سے محروم ہو جاتا ہے کی کسی سرکاری ہسپتال کے آو¿ٹ ڈور سے دوا لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے سار ادن لائن میں لگ کر بڑی مشکل سے باری آتی ہے اور پھر ڈاکٹر لاپرواہی سے چیک کر کے نسخہ اس کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے اور ڈسپنسری سے چند گولیاں اسے تھما دی جاتی ہیں۔ اب اگر غور کیا جائے تو مریض نے دوا لینے کیلئے اپنی روزمرہ کی مزدوری ترک کی اور اس کے گھر کا اس دن کا خرچہ سوالیہ نشان بن گیا۔ پھر اس دوا سے جو اسے سرکاری ہسپتال سے ملی ہے اسے کچھ بھی افاقہ نہیں ہوتا کیونکہ اس دوا میں کوئی خاص چیز نہیں ہوتا۔ اگر وہ کسی پرائیویٹ ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے تو ڈاکٹر صاحب کی فیس اس کی دو دیہاڑیوں کے برابر ہوتی ہے اور جو نسخہ و ہ لکھ کر دیتا ہے اس پر مزید دو دیہاڑیوں کی رقم خرچ ہوجاتی ہے اس طرح وہ مزدور یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی سپیشلسٹ ڈاکٹر سے علاج کرواسکے۔ مجبوراً وہ محلے کے کسی ڈسپنسر ٹائپ ”عطائی ڈاکٹر“ کے پاس جاتا ہے جو اسے 30/40 روپے میں دوا دے دیتا ہے اور اسے آرام بھی مل جاتا ہے یا کسی حکیم کے پاس چلا جاتا ہے جو اسے چیک کر کے دوا دے دیتا ہے۔
اب سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ محلے کے تمام ڈاکٹرز ، حکیم تو ”عطائی“ ہیں ان کے خلاف کریک ڈاو¿ن چل رہا ہے اور ان کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ مجبور ہو کر اپنا کلینک یا دواخانہ بند کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے یا دوسری صورت میں وہ بھی نظام کا حصہ بن جاتا ہے اور محکمہ صحت کے افسران کے ساتھ ہاتھ ملا لیتا ہے اور اپنا کاروبار جاری رکھتا ہے۔ لیکن اس صورت میں 30/40 روپے لینے والا ڈاکٹر 100/150 لینے لگتا ہے کیونکہ اس نے جو رقم ڈرگ انسپکٹر کو دینا ہے وہ بھی تو مریضوں سے ہی وصول کرنا ہے نا۔۔۔۔۔اب غریب آدمی جائے تو کہاں جائے۔ اس سارے کریک ڈاو¿ن ”عطائیوں “ کے خلاف آپریشن سے مصیبت پھر عوام اور غریب عوام پر ہی آتی ہے۔ یہ صحت عامہ کی فلاح کی کونسی قسم ہے کہ اس کی آمدنی میں اضافہ کئے بغیر اسے کہا جائے کہ وہ کسی مستند ڈاکٹر سے علاج کروائے جس کی فیس ہی اس کے دو دنوں کی کمائی کے برابر ہے۔ آج کل عام سے ڈاکٹر کی فیس 1000 روپے سے کم نہیں ۔ کئی کنسلٹنٹ پروفیسرز کی فیس پانچ سے دس ہزار بھی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر وہ ڈاکٹر عوام کی کونسی خدمت کر رہے ہیں؟
بحث کچھ زیادہ لمبی ہوگئی۔ بات ختم ہوتی ہے کہ حکومت پنجاب کو چاہئے کہ یا تو سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو معیاری اور مفت علاج معالجہ کی مکمل سہولیات فراہم کرے یا پھر مستند ڈاکٹروں کی فیسوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی نظام وضع کرے اگر یہ دونوں کام نہیں ہوسکتے جو یقینا نہیں ہو سکتے تو پھر حکومت کو اس بات کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ غریب عوام کو سستی اور فوری طبی سہولیات فراہم کرنے والے ”عطائیوں“ کو جعلی قرار دے کر یہ آخری سہار ا بھی عوام سے چھین لے۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات!!!!!!
0 تبصرے