Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ہمیں نہیں چاہئے تعلیم!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ضیاءصابری

 

ہمیں نہیں چاہئے تعلیم!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ضیاءصابری

ہمیں نہیں چاہئے تعلیم!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر: ضیاءصابری (آپریشن تھیٹر)


پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب

کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب

ہم چھوٹے تھے جب ہمارے بزرگ یہ شعر سنا کر ہمیں تعلیم حاصل کرنے پر اکساتے رہتے تھے اور ہم نواب بننے کے چکر میں آخرکار پڑھ لکھ ہی گئے۔ مگر نواب نہ بن سکے۔ خیر نواب بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں اگر دیکھا جائے تو ہم روایتی نواب تو نہ بن سکے البتہ اپنے دل کے نواب ضرور بن گئے ہیں کہ تعلیم نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ کوئی انسان چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا اور ایک حکمران سے لے کر ایک مزدور تک سب یکساں بنیادی حقوق رکھتے ہیں۔ یہ اور بات کہ یہ فلسفہ صرف ہماری سمجھ میں آیا ہے یا پھر آٹے میں نمک کے برابرچند دوسرے ہم جیسے سر پھروں کی سمجھ میں آ گیا ہوگا۔ وگرنہ معاملہ الٹ ہی ہے۔

خیر بات ہورہی تھی تعلیم کی۔۔۔۔۔ تو ہمارے بزرگ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ تعلیم سے انسان گدھے سے انسان بن جاتا ہے۔ اس سے انسان کو شعور حاصل ہوتا ہے۔ تعلیم سے زندگی کے ہر شعبے میں آسانیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ تعلیم سے بڑوں کا ادب کرنے کا سلیقہ آ جاتا ہے۔ چھوٹوں پر شفقت کرنے کو دل چاہنے لگتا ہے۔ تعلیم سے انسان کو بول چال کا مہذب طریقہ آجاتا ہے۔ اپنا مدعا مو¿ثر طریقے سے بیان کرنے کا ہنر آ جاتا ہے اوراسی لئے تعلیم یافتہ شخص زندگی کے ہر میدان میں کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔

ہمارے بزرگ ہمیں یہ بھی بتایا کرتے تھے کہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد سرکاری ملازمت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہئے بلکہ اپنے اندر شعور کی بیداری ہونا چاہئے۔ اور ہمارے دور میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ طالبعلم استاد کے سامنے ”بھیگی بلی“ بنا رہتا تھا۔ سر راہ اگر کہیں استاد سے ٹکراو¿ ہو جاتا تھا تو چھپنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔ یہ استاد کا خوف نہیں تھا بلکہ استاد کا ادب تھا کہ کہیں نادانستگی میں کوئی گستاخی سرزد نہ ہوجائے۔ اور استاد۔۔۔۔۔۔ اس زمانے کے استاد بھی اپنے طالبعلموں کو اپنے بچے اور اولاد تصور کرتے تھے۔ ان کی تربیت ایسے ہی کرتے تھے جیسے وہ اپنے گھر میں اپنے حقیقی بچوں کی کرتے تھے۔ مگر آج نہ وہ طالبعلم ہے اور نہ ہی استاد۔ طالب علم استاک کی عزت نہیں کرتا۔ ادب نہیں کرتا۔ اگر کبھی کسی غلطی پر استاد سرزنش کر بیٹھے تو کچھ ہی دیر میں طالبعلم کے والدین کٹہرا لگا کر استاد کو اس میں کھڑا کر کے ٹرائل شروع کردیتے ہیں۔ اور استاد کو جان چھڑانا مشکل ہو جاتی ہے۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ استاد سے باقاعدہ معذرت کروائی جاتی ہے ۔ جب استاد اور شاگرد کی Relationship ایسی ہوگی تو وہاں کیا استاد نے سکھانا اور کیا شاگرد نے سیکھنا؟ دوسری طرف استا د کا رویہ بھی تبدیل ہو گیا ہے آج کل استاد بھی سکول میں ”دیہاڑی“ لگانے کیلئے جاتا ہے۔ اپنی تنخواہ کھری کرنے کے چکر میں رہتا ہے۔ بچے پڑھیں نہ پڑھیں اس سے استاد کا کوئی سروکار نہیں۔ (گو کہ تمام اساتذہ اس زمرے میں نہیں آتے لیکن اکثریت ایسی ہی ہے ۔ جو مخلص اساتذہ ہیں ان سے معذرت کے ساتھ)

بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔۔۔۔ موضوع تھا کہ ہمیں نہیں چاہئے تعلیم۔۔۔ تو ہم یہ بات کر کے اپنے بزرگوں کے اقوال ، نصیحتوں اور ارمانوں پر پانی پھیر رہے ہیں۔ ان کی روحیں عالم برزخ سے شاید ہمارے لئے ”فٹے منہ“ کے نعرے لگا رہی ہوں لیکن ہم ان پاکیزہ روحوں سے دستہ بستہ عرض گزار ہیں کہ اللہ کے واسطے ہماری پوری بات تو سن لیں۔ پھر بھلے فٹے منہ کی بجائے ”دُر فٹے منہ“ کے نعرے لگاتے رہئے گا۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

تو میرے بزرگو! آپ کہتے تھے کہ تعلیم حاصل کر کے آدمی تعلیم یافتہ ہوجاتا ہے۔ تعلیم حاصل کر کے انسان ڈاکٹر، انجینئر، وکیل ، سائنسدان، ادیب، اور سیاستدان بن جاتا ہے اور یہ سارے شعبے ہمارے ملک میں با عزت لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کا فرمان سر آنکھوں پر۔ یہاں تک تو آپ بالکل ٹھیک فرماتے تھے کہ تعلیم سے انسان ”بڑا آدمی“ بن جاتا ہے۔ مگر اس کے آگے آپ نے ہمیں کچھ بھی نہیں بتایا کہ انسان بڑا آدمی بن کر کرتا کیا ہے؟ اب ہم تو جو دیکھ رہے ہیں اسی کی روشنی میں اپنا فیصلہ کریں گے نا۔۔۔۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پڑھ لکھ کر انسان ڈاکٹر بن جاتا ہے اور پھر ڈاکٹر بن کر وہ مریضوں (جو پہلے ہی بیماری کی وجہ سے زندگی سے بیزار ہوتے ہیں ) کو زندگی سے بیزار کردیتے ہیں۔ بھاری فیسوں کے ذریعے مریض کا خون نچوڑنا شروع کردیتے ہیں اور راتوں رات کروڑ پتی بننے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ پڑھ لکھ کر انسان انجینئر بن جاتا ہے اور پھر ناقص میٹریل لگا کر منصوبہ جات تیار کرتا ہے جس سے ہزاروں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ وکیل بن کر جھوٹے سچے مقدمات لڑتا ہے اور نظر صرف اپنی فیس پر رکھتا ہے۔ اس کی بلا سے کوئی بے گناہ پھانسی چڑھ جائے یا کوئی دہشت گرد باعزت بری ہوجائے۔ پڑھ لکھ کر انسان سیاستدان بھ جاتا ہے اور حکومت میں یا اسمبلی میں جا کر نظر صرف اپنی گرانٹ اور سہولیات پر رکھتا ہے۔ ا س کی بلا سے اس کے حلقے کے عوام جئیں یا مریں۔۔۔۔

ڈاکٹر، وکیل ، سیاستدان یہ وہ شعبے ہیں جنہیں ہمارے معاشرے میں وی آئی پی سمجھا جاتا ہے۔ یہ لوگ عام آدمی کیلئے ایک نمونہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ عوام کیلئے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر سیاستدان، کیونکہ ہر جمہوری سوچ رکھنے والے شہری کا کوئی نہ کوئی آئیڈیل لیڈر ہوتا ہے۔ جس کو وہ اپنا مسیحا تصور کرتا ہے اور اسے وہ اپنے تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ لیکن میرے بزرگو! آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ہم کس پاگل کو علم حاصل کرنے کی نصیحت کر بیٹھے ہیں۔ چلیں ٹھیک ہے اگر آپ ہماری بے جا باتوں سے اکتا رہے ہیں تو ہم اپنی بات کو مختصر کر دیتے ہیں۔یہ تو آپ مانتے ہیں نا کہ اوپر ہم نے جو باتیں کی ہیں وہ آپ ہم سے کرتے رہے ہیں بلکہ ان باتوں پر باقاعدہ زور آزمائی بھی کرتے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔ تو پھر دیکھئے اب آپ ہماری بات بھی سن لیجئے۔

آپ کے دور میں جو آپ فرما رہے ہیں ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ لیکن آج کے دور میں پڑھے لکھے لوگ جب وکیل بن جاتے ہیں تو عدالتوں میں ججوں کو پیٹ ڈالتے ہیں، الیکشن لڑنے کیلئے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔ غلیظ گالیوں کا تبادلہ کرتے ہیں، جب اس سے بھی آگے چلے جائیں اور پڑھ لکھ کر گریجوایٹ اسمبلی میں پہنچ جائیں تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں، ایک دوسرے کو گندی گندی گالیاں دیتے ہیں۔ اسمبلی فلور پر ایک دوسرے سے الجھ کر ہاتھا پائی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں، ڈاکٹر بن جائیں تو اپنے مفادات کی خاطر ہڑتال کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے سامنے مریض موت کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ تو میرے بزرگوارو! ہمیں ایسی تعلیم نہیں چاہئے ہمیں ایسا علم نہیں چاہئے، جو پڑھ کر ہم انسان سے حیوان بن جائیں۔ ہم ان پڑھ، جاہل مزدور ہی بھلے جو کسی سے بدتمیزی نہیں کرتا اور اپنی جان پر اپنی بساط سے بڑھ کر بوجھ ڈال کر بچوں کی روزی کما کر لاتا ہے اور رات کو سکون سے سو جاتا ہے۔ نہیں چاہئے ہمیں ایسی تعلیم جو انسان کو بلندی کی طرف لیجانے کے بجائے پستی میں دھکیل دے۔ آپ تو اپنی زندگی گزار کر چلے گئے اب ہمیں ہماری زندگی جینے دیں ہم ان پڑھ ، جاہل، گنوار ہی بھلے بزرگو!۔۔۔ اب آپ کا وہ شعر ایسے پڑھا جائے گا۔

کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب

پڑھو گے لکھو گے ہو گے خراب


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے