صحافت کی لمحہ لمحہ موت
سنتے آئے ہیں کہ صحافت معاشرے میں چوتھے ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔اور کسی بھی ریاست کی عمارت کی بقا میں صحافت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ صحافت کی دنیا میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علیخاں، آغا شورش کاشمیری، محمد صلاح الدین، حمید نظامی، میر خلیل الرحمٰن جیسے جلیل القدر صحافیوں کے نام سنہری حروف میں لکھے گئے ہیں۔ اور ہر دور میں صحافت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے مگر آج صحافت جس تذلیل و رسوائی کا شکا ر ہے وہ کبھی بھی قابل اعتناءنہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میرے اس جملے سے میرے بہت سے بھائیوں کی دل آزاری ہو اور وہ میرے خون کے پیاسے بھی ہو جائیں۔ مگر صحافت نام ہی سچ کا ہے اور سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔ اس لئے میری صحافی بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ اس سچ کو امرت سمجھ کر پی لیں۔ اگر انہوں نے اس سچ کو پی لیا تو ہو سکتا ہے کہ وہ امر ہو جائیں۔کیونکہ میں آگے چل کر جو کچھ کہنا چاہ رہا ہوں وہ صحافیوں کی عزت و وقار اور قدرومنزلت کیلئے بہت ضروری ہے۔ میں دراصل اپنے صحافی بھائیوں کے مفاد کی ہی بات کرنا چاہتا ہوں۔ آج صحافت کی تذلیل و رسوائی میں بڑا ہاتھ صحافیوں کا ہی ہے۔ صحافی معاشرے کی تعمیر وترقی، معاشرے میں برائیوں کی کمی بیشی، ریاست کی سیاست، معیشت اور معاشرت میں ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ صحافیوں نے معاشرے میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دئےے ہیں جو ریاست کے انتظامی ادارے اور سیاسی شخصیات بھی انجام نہیں دے سکتے۔مگر معاشرے نے صحافیوں کو کیا دیا؟ صرف ذلت و رسوائی۔ یہاں میری مراد ”صحافیوں “ سے ہے صحافی وہ صحافی جو واقعی صحافی ہیں بلیک میلر نہیں۔ جو صحافت برائے صحافت کے اصولوں پر کارفرما ہیں۔ صحافت کو کاروبار نہیں بنایا۔ آج ہم اپنے صحافتی اداروں کا کچھ آپریشن کرتے ہیں۔ آئےے دیکھیں کہ آ ج کے صحافی سے کیا سلوک کیاجا رہا ہے۔
ایک اچھا صحافی جس کی رپورٹنگ اور تحریروں کو ہر شخص قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اخبارات کے دفاتر میں بیٹھے ہوئے صحافت کے نا خدا ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے رہتے ہیں۔ مگر جب وہی صحافی ان کے پاس جاتا ہے کہ جناب میں آپ کے اخبار کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں تو ایڈیٹر کی کرسی پر بیٹھا ہوا شخص سب سے پہلے اس سے یہ سوال کرتا ہے کہ آپ اپنے علاقے میںروزانہ کتنی کاپیاں سیل کروائیں گے؟ ہر ماہ کتنے اشتہارات دلوائیں گے؟ اور ادارے کے مفاد میں اور کیا کیا کریں گے؟نمائندگی کے خواہشمند حضرات جواب دیتے ہیں کہ میں رپورٹر ہوں، نیوز ایجنٹ نہیں ہوں سرکولیشن سے میرا کیا واسطہ؟آپ مجھ سے رپورٹنگ کے سلسلے میں بات کریں تو انہیں ٹکا سا جواب دے دیا جاتا ہے کہ بھائی ہمارے ادارے کی پالیسی ہے کہ آپ کم از کم دس کاپیاں روزانہ بغیر واپسی کے لیں۔ اس کے لئے آپ کو ایک ہزار روپے ڈپازٹ جمع کروانا پڑے گا۔ ہر ما ہ آپ کو تقریباً پانچ ہزار کے اشتہارات بھی دینا پڑیں گے وغیرہ وغیرہ۔ اب اگر صحافی صاحب ایڈیٹر صاحب سے پوچھتے ہیں کہ ٹھیک ہے میں یہ سب کچھ کر بھی لیتا ہوں مگر آپ مجھے تنخواہ اور سہولیات کیا دیں گے۔تو جواب ملتا ہے کہ آپ کو اعزازی طور پر کام کرنا ہو گا۔ ہم آپ کو کچھ نہیں دیںگے۔
گویا کہ صحافی کو پیٹ لگا ہوا نہیں ہے۔ صحافی کی کوئی ضروریات نہیں ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ کہ ایک نمائندہ اپنے علاقے کی تمام خبریں بذریعہ فیکس یا ٹیلیفون وغیرہ اپنے ادارے کو پہنچائے گا اور اپنے علاقے میں اخبار کی سرکولیشن اور خبروں کیلئے بھاگ دوڑ کرے گا۔ تو اس کے اخراجات کہاں سے آئیں گے۔گویا کہ اخباری ادارے خود نمائندے کو بلیک میلنگ کا لائسنس جاری کر رہے ہیں کہ کارڈ سنبھالو ، بلیک میلنگ کرو، خود بھی کھاو¿ اور ہمیں بھی کھلاو¿۔ یہیں پر بس نہیں ہے ۔ پھر نمائندگی حاصل کرنے کے بعد جب بھی ادارے میں جائیں تو طرح طرح کی فرمائشیں کی جاتی ہیں۔ حیدرآباد سے آئے ہیں تو ربڑی کی فرمائش۔ ٹھٹھہ سے آئے ہیں تو مچھلی اور پلّا کی فرمائش۔ ہالہ سے آئے ہیں تو دستکاری کی فرمائش۔الغرض آپ جب بھی ادارے میں آئیں گے تو آپ کو اپنے علاقے کی کسی نہ کسی مشہور چیز کی فرمائش سننا پڑے گی۔ بلکہ پوری بھی کرنا پڑے گی ورنہ آپ کی خبریں چھپنا بند۔ اب اگر کسی باضمیر صحافی نے بھول کر ادارے سے کہہ دیا کہ بھائی ہم یہ فرمائشیں کہا ں سے پوری کریں تو ایک کرخت سا جواب سننے کو ملتا ہے کہ ”تم ہمیں کیا بیوقوف سمجھتے ہو۔ ہمیں معلوم نہیں کہ تم اپنے علاقے میں ہمارے کارڈ سے کیا کیا فائدے اور کتنی رقوم کما رہے ہو“ اب چاہے وہ بیچارہ وہاں آنے کا کرایہ بھی کسی سے ادھار مانگ کر لایا ہو مگر اس پر بلیک میلنگ کا الزام لگ گیا اب کر لو جو کرنا ہے۔ دوسری طرف معاشرے میںصحافیوں کی اب یہ عزت رہ گئی ہے کہ لوگ صحافیوں کو دیکھ کر ہی بھاگ جاتے ہیں یا کسی افسر سے ملنے جائیں تو وہ ملنا ہی گوارہ نہیں کرتا۔ کیونکہ افسران بھی مجبور ہیں اب وہ دن میں کتنے صحافیوں سے مل کر ان کو خوش کریں گے۔ مارکیٹ میں اتنے اخبارات آ چکے ہیں کہ ہر قدم پر دو صحافی مل جاتے ہیں۔ آپ یقین کریں یانہ کریں میں نے گدھا گاڑی والوں، رکشہ والوں۔ ہوٹل والوں اور بسوں کے کنڈیکٹروں کے پاس بھی پریس کارڈ دیکھے ہیں۔ آخر یہ کارڈ کہاں سے آتے ہیں۔ آپ دو سو روپے ادا کریں اور روزنامہ کا کارڈ آپ کی جیب میں۔جہاں صحافت کا یہ معیار ہو وہاں صحافی کا جینااجیرن نہیں ہو گا تو اور کیا ہو گا۔ کسی زمانے میں بلیک میلنگ بھی ایک طریقے سے ہوتی تھی مگر آج کل ہمارے صحافی بھائیوں نے خود کو اتنا گرا لیا ہے کہ ایک افسر کا کروڑوں کا غبن پکڑ کر اس سے صرف 500 روپے لے کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ کسی شریف آدمی نے صحافی سے ناجائز تعاون نہیں کیا تو دوسرے دن اس کے خلاف بڑی سی من گھڑت خبر شائع ہو جائے گی۔ منشیات کے اڈوں کی نشاندہی کرنے والے اور ان کے خلاف لمبی لمبی خبریں شائع کرنے والے خود رات کو پریس کلب میں بیٹھ کر شراب نوشی کرتے ہیں۔ شراب کی دکانوں سے اگر ان کو شراب کی بوتل مل گئی تو دکان لائسنس یافتہ ہے ورنہ دنیا جہان کے عیب موجود اور لمبی سی خبر۔ پولیس کے خلاف رشوت بدعنوانی اور کرپشن کی خبریں چھاپنے والے خود اپنے گریبان میں جھانکیں تو سر شرم سے جھک جائے گا۔ ہماری پریس کلبوں میں کیا کیا نہیں ہوتا مگر بات صرف یہ ہے کہ پریس کلب میں گھسنا اور کوئی کارروائی کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ اس حمام میں تو سب ننگے ہیں کے مصداق کارروائی کرنے والوں کے ہاتھ خود بھی صاف نہیں ہوتے۔صحافت کا معیار یہ بن گیا ہے کہ بائنڈر، کاتب، منشیات فروش، پتھاریدار، جرائم پیشہ افراد اخبار کے مالک بن بیٹھے ہیں ۔ اور اچھے ذہن اور معیاری صحافی انہیں ”سر۔سر“ کہنے پر مجبور ہیں ۔ گو کہ یہ سب باتیں نہ تو تمام صحافیوں پر صادق آتی ہیں اور نہ ہی تمام اداروں پر۔ اچھے ادارے بھی موجود ہیں اور اچھے صحافی بھی۔ مگر اکثریت مندرجہ بالا حقائق سے دور نہیں ہیں اور جو اچھے صحافی ہیں وہ ہمیشہ بھوک افلاس اور غربت میں ہی مبتلا رہتے ہیں ۔ ایسے صحافی بھی موجود ہیں جو صحافت میں آنے سے پہلے کوئی معاشی حیثیت نہیں رکھتے تھے مگر صحافت اختیار کرنے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمیندار اور کاروباری آدمی بھی بن گئے اور بہترین گاڑی اور روپے پیسے کی ریل پیل بھی ہو گئی۔ یہاں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے محنت کی اور پیسہ کمایا۔ مگر مجھے آج تک ان کی محنت کا محور نظر نہیں آیا۔ کیا ان کو ان کے ادارے سے ایسی سہولیات ملیں کہ انہوں نے محنت کر کے یہ سب کچھ کمالیا۔ اچھے سے اچھا ادارہ بھی رپورٹر کو دو تین ہزار سے زیادہ معاوضہ ادا نہیں کرتا۔اور یہ وہ رقم ہے جو وہ فیکس وغیرہ کے سلسلے میں خرچ بھی کر ڈالتا ہے۔ پھر اس کی جیب میں کیا آیا؟ کچھ بھی نہیں۔ مگر آج تک کبھی کسی نے اس پر غور نہیں کیا۔مگر اچھے اور بااصول صحافی ہمیشہ دکھوں سے زندگی بسر کرتے رہے۔ ہمارے معاشرے میںیہ رواج بہت پرانا ہے کہ ادبی ذہن کو ہمیشہ کچلا گیا ہے۔ آج تک آپ کوئی شاعر ادیب یا صحافی ایسا بتلا دیں جو معاشی طورپر آسودہ زندگی گزار چکا ہو۔ شاعروں اور ادیبوں جنہوں نے صرف ادب کی خدمت کرنے کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ مرنے کے بعد ان کے گھروں سے ٹوٹے پھوٹے برتنوں اور پھٹے بستروں کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ ہم دور حاضر کے صحافیوں میں محمد صلاح الدین کی بات کریں تو انہوں نے بھی اس وقت تک کچھ حاصل نہیں کیا جب تک وہ صحافت کو صحافت سمجھ کر کرتے رہے۔ آخر دم تک انہوں نے ملت پریس بھی قرضہ حسنہ لے کر لگائی البتہ سرکاری اشتہارات کی مد میں ان کو مدد ملتی رہی۔ جس سے انہوں نے ترقی کر لی۔ میر خلیل الرحمٰن نے ساری زندگی سخت تگ ودو میں گزاری۔ اور جب تک وہ صحافی رہے کچھ نہ بن سکے۔ مگر جب وہ صحافی سے اخبار کے مالک بن گئے وہ دن بدن کچھ کے کچھ ہوتے گئے۔ اور آج پوری دنیا میں ان کا طوطی بولتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر صحافی کے ارمانوں کا خون کیوں کیا جاتا ہے؟ جب کوئی اخبار رسالہ جریدہ صحافیوں کے بغیر چھپ ہی نہیں سکتا، کسی بھی اخبار کی ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ صحافیوں اور رپورٹروں کا ہوتا ہے۔ مگر اس کے باوجود صحافیوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیوں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اس میں سارے کا سارا قصور صحافیوں کا اپنا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر ایک ادارے میں کوئی جگہ خالی ہوتی ہے تو ادارے میں بیسیوں امیدوار پہنچ جاتے ہیں۔ اور ان میں اکثر مفت کام کرنے اور ادارے کو الٹا اپنی جیب سے ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کو خبر ہوتی ہے کہ کارڈ ملنے کے بعد ان کی پانچوں گھی میںہونگی۔ اب وہاں ایماندار صحافی کیا کرے گا۔ اس لئے ایماندار صحافی کی کبھی بھی ادارے کو ضرورت نہیں رہتی۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر صحافت کے ساتھ یہی رویہ روا رکھا گیا تو ایک دن آئے گا اور آج کا دور اس دن کے بہت قریب ہے کہ صحافیوں کو نہ معاشرے میں عزت ملے گی اور نہ ہی صحافتی اداروں میں۔ وہ ایک بے کار چیز کی حیثیت اختیار کر جائےں گے۔ ہماری اپنے صحافی بھائیوں سے یہ گزارش ہے کہ وہ اپنی عزت قدرومنزلت اور وقار کو بچائیں اور اداروں سے اپنا حق لینا سیکھیں۔ اور معاشرے میں اپنا وقار بحال کریں ورنہ صحافی معاشرے میں اپنا تھوڑا بہت بچا ہوا وقار بھی کھو بیٹھیں گے!!!!!
(مطبوعہ: ماہنامہ ”اجرک“ کراچی اپریل،مئی 1995 ئ)
0 تبصرے