Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

فلمی صحافت کا گھناؤنا کردار

 فلمی صحافت کا گھناؤنا کردار

 

آجکل اخباری اسٹالوں اور بک سیلرز کی دکانوں پر بڑے خوبصورت انداز میں نمایاں جگہ پر فلمی اخبارات ورسائل نظر آتے ہیں۔ اور فلمی پرچوں کی تعداد آج کل بڑھتی جا رہی ہے۔ ان میں باقاعدہ ڈیکلریشن کے تحت شائع ہونے والے پرچے بھی شامل ہیں اور بغیر ڈیکلریشن کے پبلیکیشن کے طور پر شائع ہونے والے بھی ۔ ان اخبارات و رسائل میں بڑے بڑے رنگین فوٹو دیدہ زیب ٹائیٹل اور دلفریب تحاریر انتہائی کشش کا باعث ہوتے ہیں ایک زمانہ تھا کہ ایک بدنام زمانہ مصنف وحی وہانوی کی کتب کا درپردہ بہت چرچا تھا۔ جس کی خاصیت تھی کہ وہ ”تھری ایکس“ میں لکھتا تھا اور بے راہرو نوجوان ان کتابوں کو پڑھ پڑھ کر اپنا برا حال کرتے رہتے تھے۔پھر نامعلوم وجوہات کی بناءپر وحی وہانوی کی کتب مارکیٹ سے غائب ہو گئیں اور اس کے بعد بھی مختلف مصنفوں کی لکھی ہوئی عجیب و غریب عنوانات والی فحش اور واہیات کتب ٹھیلوں پر پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند بکنے لگیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ فلمی صحافت کسی زمانے میں ایک مقام رکھتی تھی۔ اور فلمی صحافی فلم انڈسٹری کی اونچ نیچ ترقی تنزلی کے اسباب شو بزنس سے متعلق افراد کے خوبصورت انٹرویو اور ان سے متعلق خبروں سے عوام کو روشناس کراتے تھے۔ اور اس دور میںنہ تو فلموں میں عریانی ہوتی تھی اور نہ ہی فلمی صحافت میں ۔اس دور میں ایک فلمی پرچہ بھی پوری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر پڑھا جا سکتا تھا۔ مگر آج۔۔۔۔۔ آج فلمی صحافت کا معیار عریانیت بن کر رہ گیا ہے۔ اس وقت مارکیٹ میں متعدد فلمی اخبارات و رسائل موجود ہیں اور بڑا اچھا بزنس کر رہے ہیں۔ فلمی اخبارات مارکیٹ میں آتے ہی فروخت ہو جاتے ہیں اور کچھ رسائل تو بلیک میں بھی فروخت ہوتے ہیں۔ آج تک کوئی اخبار بلیک میں فروخت نہیں ہوا۔ مگر اب فلمی اخبارات ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان اخبارات کے صفحہ اول پر د ویا تین نیم عریاں خوبصورت لڑکیوں کی تصاویر چھپی ہوتی ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان تصاویر کے ساتھ ایسی تحریریں بھی ہوتی ہیں جو کسی بھی نوجوان کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ ذیل میں کچھ اخبارات کی تحریروں میں سے کچھ اقتباسات دئےے جا رہے ہیں۔ یہ اقتباسات شائع کرنے کا مقصد صرف ان اخبارات کی پالیسی اور واہیات تحریروں کی نشاندہی کرنا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنا مضمون ہٰذا کا تقاضہ ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی فلم میں سین کی ڈیمانڈ کے طور پر کچھ غیر اخلاقی جملے بولنے پڑتے ہیں۔ کراچی سے شائع ہونے والا ایک ماہنامہ اپنے تازہ شمارے میں بھارتی اداکارہ دپتی بھٹناگر کے حوالے سے لکھتا ہے۔”میرے لئے سیکس کا مطلب ہے اطمینان ،محبت اور کسی کا ہو جانا، میں نے زندگی کا جسمانی تجربہ آج سے تین چار سال قبل کیا تھا لیکن اس میں مجھے لطف نہیں آیا۔“ اسی مضمون میں آگے چل کر ماہنامہ لکھتا ہے۔” ابھی حال ہی میںایک مشہور اداکارہ ملی وہ میرے لباس کی تعریف کرتے ہوئے کہنے لگی۔ دپتی تم نے تو بہت خوبصورت لباس پہنا ہوا ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے وہ اپنا ہاتھ میرے سینے پر رگڑنے لگی۔“ علاوہ ازیں دپتی بھٹناگر کے انٹرویو میں جگہ جگہ جنسی مکالمات بھرے ہوئے تھے۔ اسی ماہنامہ نے ایک سرخی جمائی ہے۔ سیکس بم ترشناکی بے حیائیاںاور اس سرخی کے تحت مضمون میں متعدد عریاں تصاویر اور تحاریر شائع ہوئی ہیں جو کسی بھی طرح ایک شریف شخص نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ پڑھ سکتاہے۔ اس ماہنامہ کی خاص بات یہ ہے کہ ٹائیٹل پر ایک ماڈل کی مکمل برہنہ تصویر ہے جس نے کمبل سے اپنے جسم کے نازک حصوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اور آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ ماہنامہ ایک خاتون کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے اور اس ادارے میں پبلشر و ایڈیٹر کے علاوہ متعددخواتین کام کرتی ہیں۔ راقم اس سے آگے کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتا۔کراچی ہی سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ اخبار نے صفحہ اول کے ٹاپ پر پانچ کالم میںایک لڑکی کی رنگین تصویر شائع کی ہے۔ جس کے جسم کے نچلے حصے کو ڈھانپنے کی کوشش کی گئی ہے اور اندرونی صفحات میں متعدد نیم عریاں تصاویر اور جنسی قسم کے مضامین شامل اشاعت کئے گئے ہیں۔ اسی طرح کے دیگر اخبارات جن میں رونق میلا، جھنکار، پرکشش، ناز، مووی، فلمی میلا، نور جہاں، فلم فئیر شامل ہیں نے صحافتی دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ اور اپنے رنگین اور ”سنگین“ پرچوں کے ذریعے معاشرے میں عریانیت بے راہروی، کرپشن اور نوجوان نسل میں گمراہی پھیلا رہے ہیں۔ مزیداری کی بات یہ ہے کہ ان اخبارات میں سے اکثر اخبارات میں رجسٹریشن آف پرنٹنگ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کے مطابق کوئی پرنٹ لائن نہیں ہوتی۔ یہاں میں عام قارئین کے علم کیلئے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ قانون کے مطابق کسی بھی اخبار یا رسالے میں واضح جگہ پر پبلشر، ایڈیٹر کا نام ، پرنٹر کا نام، پرنٹنگ پریس کا نام اور مقام اشاعت شائع کرنا ضروری ہوتا ہے جس کو پرنٹ لائن کہا جاتا ہے ۔ مگر مذکورہ قسم کے اخبارات میں یہ پرنٹ لائن غائب ہوتی ہے۔ جس پر ارباب اختیار نے کبھی بھی توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ دوسری طرف اس قسم کی اخلاق باختہ تصویریں اور تحریریں شائع کرنے پر بھی ان اخبارات کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جا رہا ہے۔ اور ہمارے پاک وطن کے اسلامی معاشرے کو مغربی طر ز پر ڈھالنے کی بتدریج کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں سوچ کا پہلو تبدیل کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اس حقیقت کے پیش نظر نا دیدہ قوتوں نے پاکستان میں عریانیت اور اخلاق سوز مغربی طرز کے معاشرے کے فروغ کیلئے باقاعدہ پلاننگ کے تحت ذرائع ابلاغ کو اپنا آلہ کار بنا رکھا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وی سی آر کے معاشرے پر مضر اثرات کے سلسلے میں علمائے دین بہت واویلا کرتے رہے۔ مگر جب اپنی دال گلتی نظر نہ آئی تو مجبوراً خاموش ہو گئے۔ پھر ڈش انٹینا کا دور چلا تو ایک بار پھر اس کی مخالفت کی گئی اور مدعا یہ بیان کیا گیا کہ وی سی آر اور ڈش انٹینا کے ذریعے مغربی ثقافت کی پاکستان کے معاشرے میں یلغار ہو رہی ہے۔ اور اخلاق باختہ قسم کی نشریات کے ذریعے نوجوان نسل گمراہ ہو رہی ہے۔ مگر اس قسم کے اخبارات کے لئے کبھی علمائے دین نہیں بولے۔ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے بدنام زمانہ مصنفوںکی تحریروں پر تو پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بہت واویلا کیا گیا مگر خود اپنے ملک میں اپنے معاشرے میں ہماری صفوں میں ایسے بیسیوں سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے ضمیر فروش قلمکار اور نام نہاد صحافی صرف چند ٹکوں کی خاطر پوری قوم کے مستقبل کو داو¿ پر لگائے ہوئے ہیں۔ صرف اپنے اخبار کی سرکولیشن بڑھانے کے چکر میں پورے معاشرے میں عریانیت پھیلا رہے ہیں۔ اگر غیر جانبداری سے سوچا جائے تو ان اخبارات و رسائل کی حوصلہ افزائی ، فروغ اور ان کے مضر اثرات کو تقویت دینے والے سب سے بڑے مجرم وہ مالیاتی ادارے ہیں جو ایسے رسائل کو اشتہارات دیتے ہیں۔ کسی بھی اخباری ادارے کا شعبہ اشتہارات ادارے کے کچن کا کردار ادا کرتا ہے۔ جس طرح گھر کے کچن میں کھانا تیار ہوتا ہے اور گھر کے تمام باسی اپنا پیٹ بھرتے ہیں اسی طرح شعبہ اشتہارات ہی پورے ادارے کے اخراجات کو پورا کرتا ہے۔ سرکولیشن سے کبھی بھی اخباری اداروں کے اخراجات پورے نہیں ہو سکتے۔ خواہ سرکولیشن لاکھوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ ایک طرف تو حکومتی ادارے اچھے اچھے اخبارات و رسائل کے اشتہارات صرف پالیسی کی بنیاد پر بند کر دیتے ہیں اور ان اداروں کا معاشی قتل عام کر دیا جاتا ہے اور دوسری طرف ایسے بیہودہ رسائل میں بڑے بڑے اداروں کے رنگین اشتہارات کی بھرمار ملتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ادارے ایسے رسائل کو اشتہارات کس پالیسی کے تحت دیتے ہیں۔ اگر سرکولیشن کا عمل دخل مان لیا جائے تو ان رسائل سے کہیں زیادہ سرکولیشن ہفت روزہ تکبیر کی ہے۔ مگر تکبیر میں کبھی اس قسم کے اشتہارات نہیں ملتے۔ اوپر ذکر کئے گئے ماہ نامہ کے مئی 1995 ءکے شمارہ میں سرورق کے اندر این ڈی ایف سی کا رنگین اشتہار، صفحہ 3 پر حبیب بینک کا رنگین اشتہار، صفحہ 4 پر یو بی ایل کا رنگین اشتہار، صفحہ 6 پر پی آئی اے کا سادہ اشتہار،صفحہ 24 پر ایک پرائیویٹ کمپنی کا سادہ اشتہار، صفحہ 43 پرروح افزا کا سادہ اشتہار، صفحہ 44 پر ایک پرائیویٹ کمپنی کا سادہ اشتہار، صفحہ 71 پر ٹپال چائے کا رنگین اشتہار، صفحہ 73 پر ایک تعمیراتی کمپنی کا سادہ اشتہار ، صفحہ 74 پر ایک تعمیراتی کمپنی کا سادہ اشتہار، صفحہ86 پر ایک پرائیویٹ کمپنی کا سادہ اشتہار ، بیک پیج کے اندر ایک الیکٹرونکس کمپنی کا رنگین اشتہار، اور بیک ٹائیٹل پر نیشنل بینک کا رنگین اشتہار شائع ہو ا ہے۔ مندرجہ بالا اشتہارات میں سے 5 اشتہارات باقاعدہ پی آئی ڈی سے جاری کئے گئے ہیں اور کل 6 رنگین اور 8 سادہ اشتہارات شائع ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سادہ اشتہارات کی صورت میں بھی 5000 سے کم اور رنگین اشتہارات عام ریٹ سے چار گنا چارجز کے حساب سے 20 ہزار سے کم نہیں ہیں۔ اس حساب سے مندرجہ بالا شمارہ میں اشتہارات کی کل رقم ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنتی ہے۔ اگر سرکاری ادارے اور نجی ادارے اسی طرح واہیات پرچوں کو نوازتے رہیں گے تو ایسے پرچوں کے مالکان کو کیا تکلیف ہے کہ وہ پرچہ شائع نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس کسی معیاری اور ادبی قسم کے رسائل و اخبارات ہمیشہ وسائل کی کمی کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔ اکثر ادارے کے کارکنان اپنی تنخواہوں کی وجہ سے بھی پریشان رہتے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے حکومتی ادارے جان بوجھ کر اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسے رسائل کو وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ یا پھر اس صحافت کے پس پردہ کچھ اور گھناو¿نے کاروبار جاری ہیں ۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ مذکورہ ماہنامہ کی مالک ایڈیٹر اور زیادہ تر کارکنان خواتین ہیں جو خواتین اس قسم کے رسائل مارکیٹ میں پھیلا رہی ہیں ان کے اپنے کردار کے متعلق کیا ضمانت دی جا سکتی ہے۔یہ ایک انتہائی فکر انگیز حقیقت ہے اور دوسری طرف یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حکومتی مالیاتی اداروں کے ذمہ دار افسران اچھے معیاری اور ادبی پرچوں کو نظر انداز کر کے ایسے واہیات پرچے کو نواز رہے ہیں تو ان مالیاتی اداروں کے افسران کے کون سے خفیہ مفادات ان پرچوں سے وابستہ ہیں۔ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنا اشد ضروری ہے۔ وی سی آر ڈش انٹینا تو ایسی چیزیں ہیں جو پہلی بات تو یہ ہے کہ عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہیں اور دوسری بات یہ کہ ان کے اثرات گھر کی چار دیواری تک مقید ہیں۔ مگر فلمی اخبارات آپ کو شاہراہوں پر بازاروں اور جگہ جگہ لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اور راقم نے کئی بار یہ نظارہ دیکھا ہے کہ کمسن بچے اسکول سے واپس آتے ہوئے یا اسکول جاتے ہوئے یا ویسے ہی راہ چلتے ہوئے ان اخبارات کی نیم عریاں تصاویر کو بغور دیکھ رہے ہوتے ہیں۔وہاں سے نوجوان لڑکیاں بھی گزرتی ہیں اور ان کی نظر بھی نادانستہ طور پر ان اخبارات کا احاطہ کرتی ہو گی۔ ان حالات میں نوجوان اور کم عمر کچے ذہن کی لڑکیوںپر ان تصاویر کا کیا اثر پڑتا ہو گا۔ یہ ہر ذی شعور شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں محکمہ اطلاعات کے ارباب اختیار پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس کے بعد انتظامیہ بھی خود کو اس بھاری ذمہ داری سے مبرا نہیں کر سکتی۔ اور سب سے بڑھ کر ان نام نہاد صحافیوں کو بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ آیا ان کا اپنا اخبار ان کے اپنے گھر میں جاتا ہے۔ اگر جاتا ہے تو کیا وہ اپنی بہو بیٹیوں اور بیٹوں کو یہ اخبار پڑھوانا پسند کریں گے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ معاشرے کے دوسرے لوگوں کے بارے ایسا کیوں سوچ رہے ہیں ۔ ان کی دینی غیرت اور قومی سوچ کہاں مر گئی ہے۔ کیاوہ صرف اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں۔ یا وہ واقعی ہی اس طرح صحافت کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ان اخبارات کے مالکان، کارکنان اور بمعہ ان کے ہاکروں اور اخبار فروشوں کو سوچنا پڑے گا۔ اس سلسلے میں ارباب اختیار کی مجرمانہ خاموشی بھی کسی طرح سے قابل در گزر نہیں ہے۔ اور ان کو بھی اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ اپنی دینی قومی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو بھی سامنے رکھ کر اس اہم مسئلہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک دن ایسا آئے گا جب یورپ کی طرح پاکستان میں بھی پلے بوائے قسم کے رسائل چھپنا شروع ہو جائےں گے۔ جب نائٹ کلبوں میں میری آپ کی بہنیں بیٹیاں اور بیویاں دوسروں کی بانہوں میں محو رقص ہوں گی۔ جب بیٹا اپنے باپ سے نوجوان لڑکی کا تعارف اس طرح کروائے گا۔ ڈیڈیہ میری نئی گرل فرینڈ ہے۔جب بیوی اپنے شوہر سے کہے گی ڈارلنگ میرے کیبرے ڈانس کا وقت ہو گیا ہے میں جا رہی ہوں۔ جب بیٹی اپنی ماں سے کہے گی مما میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کلب جا رہی ہوں۔ ذرا سوچیں۔۔۔۔۔۔ خدارا سوچیں۔۔۔۔۔۔۔ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟

٭٭٭٭٭٭٭

فلمی صحافت کا گھناؤنا کردار

(مطبوعہ: ماہنامہ ”اجرک“ کراچی جون 1995 ئ)


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے