غلامی کی طرف پیش قدمی
تقریباً ڈیڑھ صدی قبل مغل شہنشاہوں نے بر صغیر پاک و ہند کو ترقی دینے اور اسے عالمی تجارت میں اہم مقام دلانے کے چکر میں غیر ملکیوں کو تجارتی مقاصد سے بر صغیر میں آنے کی اجازت دی اور تاریخ گواہ ہے کہ وہی تاجر آہستہ آہستہ پورے برصغیر پر قابض ہو کر وہاں کے حکمران بن بیٹھے۔ اور ہندوستان کو غلام بنا لیا۔
اس غلامی کے طوق کو اتار پھینکنے کے لئے مسلمان قوم کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے۔ کس طرح اپنی بہو بیٹیوں کی عزتیں اپنی آنکھوں کے سامنے پامال ہوتے دیکھنا پڑیں۔ کس طرح اپنے بوڑھے والدین معصوم بچوں اور نوجوان بھائیوں کی لاشوں پر سے گزرنا پڑا۔ تاریخ کے علاوہ پاکستانی قوم کے ذہنوں میں بھی ابھی تک محفوظ ہے کہ اس واقعہ کو ابھی صرف نصف صدی ہی گزری ہے اور آج بھی پاکستانی قوم کی آنکھوں میںآگ و خون کے وہ دریا تیر رہے ہیں جو انہوں نے صرف اور صرف آزادی کی خاطر عبور کئے تھے۔ برصغیر میں کھیلی جانے والی خون کی اس ہولی کے محرکات کیا تھے؟ صرف حقوق کی پامالی۔۔۔۔ مسلم قوم کو ان کی سیاسی مذہبی اور انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ جس پر تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مسلم قوم نے علیحدگی کا نعرہ لگایا۔ اور آخر کار اپنے لاکھوں جاں نثاروں کی قربانی دے کر اور اپنی املاک سے دستبردار ہو کر آزادی حاصل کر لی۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد مسلمان قوم کتنی خوش تھی۔ کہ اب پاکستان میں کوئی ان کے حقوق پامال نہیں کرے گا۔ کوئی انہیں مذہبی رسومات ادا کرنے سے نہیں روکے گا۔کوئی ان کی بہن بیٹی کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ کوئی ان کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دے کر ظلم و ستم نہیں ڈھائے گا۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔مگر آج ہم جس پاکستان میں رہ رہے ہیں وہ کسی بھی طرح قائد اعظم کا بنا یا ہوا پاکستان نہیں ہے۔ آج پھر پاکستانی قوم اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔ آج پھر ہماری عزتیں سر بازار لٹ رہی ہیں۔ آج پھر کراچی کی گلیوں میں انسانی لاشیںگر رہی ہیں۔آج پھر ہماری املاک پر قبضہ ہو رہا ہے۔ آج پھر ہم شیعہ سنی اور دوسرے فرقوں میں بٹ کر مذہبی آزادی کھو چکے ہیں۔ آج پھر ہماری مساجد غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہیں۔ اور ان پر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ ہو رہی ہے۔ آج پھر عدالتوں میں انصاف عنقا ہو گیا ہے۔آج پھر لاٹھی چوہدریوں اور جاگیر داروں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ اور عوام دوسرے درجہ کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔ دوسری طرف موجودہ حکومت ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اور دھڑا دھڑ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ معاہدے ہو رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ملک کے اہم ترین شعبہ جات کو بھی نجی شعبہ کے حوالے کر دیا گیا ہے او ر پی ٹی سی ووچرز اور دوسرے ذرائع سے اس میں بھی غیر ملکی مداخلت ہو چکی ہے۔اسی طرح صنعت کے شعبہ میں بھی بڑے پیمانے پرغیر ملکی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔
اس وقت کراچی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملک بھر کی تجارت کا دارومدارکراچی پر ہے۔ کیونکہ یہ ملک کی واحد بندرگاہ ہے۔ جہاں سے ملک کی تمام درآمدات و برآمدات عمل میں آتی ہیں اور بعض اطلاعا ت کے مطابق کراچی میں اقوام متحدہ کی افواج اتارنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اور کراچی میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا نہ رکنے والا سلسلہ اس بات کو تقویت دے رہا ہے۔ کراچی کو فری پورٹ بنایا جا رہا ہے۔ امریکی باشندوں کی نقل و حرکت میں واضح اضافہ اور پر اسرار قسم کی مصروفیات دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ ادھر حکومت کراچی سے شاہ بندر تک ساحلی علاقوں کو ترقی دینے کیلئے کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کر چکی ہے۔ جو کہ تمام ساحلی علاقوں کی ترقی کیلئے کوشاں ہو گا۔ اور وہ اپنے منصوبہ پر تیزی سے عمل کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں کیٹی بندر کو باقاعدہ بندر گاہ بنانے کا کام بھی جاری ہے۔ یہ بات کسی بھی طرح قابل گرفت نہیں ہے بلکہ یہ ملکی ترقی میںایک روشن باب کا اضافہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ کراچی کی زمینوں کی قیمت میں اچانک اضافہ ہو گیا ہے اور ان کے گاہکوں میں اکثر غیر ملکی بھی شامل ہیں اور کراچی سے شاہ بندر تک کے ساحلی علاقوں کی زمینیں جو کبھی بھی قابل توجہ نہیں رہیں ان کے اچانک سودے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اور منہ مانگی قیمت پر یہ زمینیں خریدنے والوں میں اکثریت بین الاقوامی سمگلروں کی ہے۔ دوسری طرف گوادر جیسے اہم عسکری اہمیت کے حامل علاقے کو دوسرے ملک کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
ان تمام حالات کو دیکھ کر برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کی یاد تازہ ہو رہی ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نظر آ رہی ہے۔ آج پھر غیر ملکی ہماری پاک سرزمین میں پنجے گاڑ رہے ہیں۔ اور ایک طرف ہماری معیشت تجارت اور ملک کے اہم ترین شعبہ جات پر قبضہ جما رہے ہیں۔ اور دوسری طرف وی سی آر ، ڈش اینٹینا اور دوسرے ذرائع ابلاغ کے ذریعے مغربی ثقافت کی یلغار کر کے ہمارے ذہنوں پر تسلط جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ایک ہی سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا ہم پھر غلامی کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں؟ کیا پاکستانی قوم ایک با ر پھر غلام بنا لی جائے گی؟
اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ہم غلامی کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ملک کی واحد بندر گاہ کراچی پر فری پورٹ کی صورت میں غیر ملکی قبضہ، صنعت، مواصلات اور دیگر اہم شعبوں میں غیر ملکی مداخلت سے ایک طرف تو غیر ملکی ہماری معیشت پر قابض ہو رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستانی قوم ذہنی طور پر مغربی ثقافت کی یلغار سے مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اور آخر کار ایک دن ہم پھر (خاکم بدہن)یہودیوں کی غلامی میں چلے جائیں گے۔ فرق صرف اتنا ہو گا کہ برصغیر کے مسلمان برطانیہ کی غلامی کرتے رہے ہیں اور پاکستان کے مسلمان امریکہ کی غلامی کریں گے۔ یہ بلا شبہ پاکستانی قوم کیلئے ایک لمحہ فکریہ ہے اور اس سازش کو پاکستانی قوم اپنی مجاہدانہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہی ناکام بنا سکتی ہے ۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!
٭٭٭٭٭٭٭٭
(مطبوعہ: روزنامہ ”سویرا“ کراچی 6 مارچ 1995 ئ)
0 تبصرے