ہمیں تم سے پیار کتنا۔۔۔۔۔؟
۶ ستمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں وزیر اعظم نے ایک ریلی سے خطاب کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں عوام نے اس میں شرکت کی۔ اور جلسہ کامیاب قرار دیا گیا۔ پھر ۱۱ ستمبر کو کراچی میں وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو اور لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ دونوں جلسے ایک دوسرے کے مقابلے پر کئے گئے۔ دونوں ہی جلسوں کی تیاریاں کئی روز پہلے سے ہی زور شور سے جاری ہو گئی تھیں۔ پوسٹرز، بینرز، ہینڈبل، اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے پبلسٹی کی گئی۔ ۰۱ ستمبر کو ہمارا کراچی جانے کا اتفاق ہوا۔ کراچی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔ جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگائے گئے تھے۔ جہاں کئی کئی نوجوان ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ پورے شہر میں ہزاروں کی تعداد میں خوبصورت اور رنگین بینرز لگے ہوئے تھے۔ جن پر مختلف قسم کے نعرے اور قائد اعظم کے اقوال زریں رقم تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں پوسٹرز نظر آئے۔ ہر طرف دیواروں پر وزیراعظم کی رنگین تصاویر نظر آ رہی تھیں۔ مزار قائد سے متصل جلسہ گاہ کو جس محنت اور خوبصورتی سے تیار کیا جا رہا تھا وہ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ دو منزلہ اسٹیج اور جلسہ گاہ کے اطراف میں سجاوٹ پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔ الغرض کراچی میں عید کا سا سماں نظر آ رہا تھا۔ اور ہمیں یقین ہے کہ لاہور میں بھی اسی طرح کے انتظامات کئے گئے ہوں گے۔دونوں پارٹیاںایک دوسرے کے مد مقابل سیاسی اکھاڑے میں اترنے والی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی دنگل ہونے والا ہے۔ جس میں دو مشہور پہلوان حصہ لے رہے ہوں اور دونوں طرف ہی اپنے اپنے پہلوانوں کی ہمت افزائی اور حوصلہ افزائی کے لئے نعرے بازی کا سلسلہ جاری ہو۔ اس طرح جلسوں سے پہلے اخبارات میں مختلف قسم کے بیان آ رہے تھے اور دونوں ہی پارٹیاں اس بات کایقین ظاہر کر رہی تھیں کہ دوسری پارٹی کا جلسہ ناکام اور اس کا اپنا کامیاب ثابت ہو گا۔ عوام کے لئے بھی یہ ”دنگل“ خاصی دلچسپی کا باعث بنا ہوا تھا اور آخر کار مقررہ تاریخ آن پہنچی۔ لوگ ۰۱ ستمبر کی شام سے ہی جلسہ گاہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ مبادا کہ وہ جگہ سے محروم رہ جائیں۔اور اپنے محبوب قائد اور دل کی دھڑکن کو قریب سے دیکھنے سے محروم رہ جائیں۔ ظاہر ہے لاکھوں افراد کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے ہر قطرے کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسٹیج سے نزدیک ترین جگہ پر موجود ہو تاکہ اپنے محبوب قائد کی قریب سے ایک جھلک دیکھ سکیں۔ اور اس کی باتیں لاو¿ڈ سپیکر کی وساطت کے بغیر براہ راست سن سکیں۔ اسی خواہش نے لوگوں کو تقریباً چوبیس گھنٹے پہلے ہی گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اور وہ جلسہ گاہ میں پہنچ گئے۔ اور اپنی اپنی جگہ پر قبضہ جما لیا۔ پورے سندھ سے بلکہ سندھ سے باہر سے بھی لوگ جلسے میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ اپنے ملک کی سربراہ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عوام کو جوق در جوق جلسہ میں دیکھ کر ہمارا سیروں خون بڑھ گیا کہ ہمارے ملک میں واقعی ایک نمائندہ حکومت ہے۔ جس کی آواز پر شہری لبیک کہتا ہے۔ مگر دانشوروں کا قول ہے کہ وقت بہت قیمتی سرمایہ ہے جو قومیں وقت ضائع کرتی ہیں وقت انہیں ضائع کر دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو آج کل میری تحریریں ناگوار گزرتی ہوں انہیں تنقید برائے تنقید کا نام دیا جاتا ہو کہ ہم ہر بات میں کوئی نہ کوئی خرابی نکال بیٹھتے ہیں اور اسی خرابی کو موضوع بنا کر لکھ ڈالتے ہیں ۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ہم حکومت کے اچھے کارناموں کی دل کی گہرائیوں سے قدر کرتے ہیں ۔ ہم صرف کمزور پہلوو¿ں کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان پر بھی توجہ دی جائے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے یہ مضامین یہ گریہ و زاری نقار خانے میں طوطی کی آواز سے مشابہت رکھتی ہے۔ مگرپھر بھی اپنے تئیںضمیرکو مطمئن کرنے کا ایک ذریعہ ہے کہ ہم نے ایک خرابی دیکھ کر خاموشی اختیار نہیں کی اور ایمان کے کمزور ترین درجہ میں داخل نہیں ہوئے۔ بہر حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم بات کر رہے تھے وقت کی جو ایک دفعہ جانے کے بعد کبھی دوبارہ واپس نہیں آتا۔ ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے جو جلسہ منعقد کیا۔ کیا وہ بہت ضروری تھا۔کیا وزیر اعظم یہ ساری باتیں جو انہوں نے جلسے میں کیں وہ ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے قوم سے خطاب کر کے نہیں کر سکتی تھیں۔ ہم اس بات کے معترف ہیں کہ ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا عوام کے سامنے بہ نفس نفیس آنا عوام میں گھل مل جانا اور روبرو تقریر کرنا جمہوریت کا ایک روشن باب ہے۔ ایک جمہوری سربراہ کو عوام کے اتنا ہی قریب ہونا چاہئے۔ مگر ا س بات کے منفی پہلوو¿ں پر بھی غور ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو آپ اسٹیج کا جائزہ لیں۔ کتنا روپیہ خرچ ہو ا ہو گا اس پر؟ کتنے افراد کی انرجی صرف ہوئی؟ کتنے افراد کا کتنا وقت صرف ہوا؟ استقبالیہ کیمپوں میں جو نوجوان ایک دن پہلے سے ڈیوٹی دے رہے تھے ان کا کتنا وقت صرف ہوا؟ ان کیمپوں پر روپیہ کتنا خرچ ہوا؟ پورے کراچی شہر میں لاکھوں کی تعداد میں جو پوسٹرز اور بینرز لگائے گئے تھے ان پر کتنا خرچ آیا ہو گا؟ ان بینروں اور پوسٹروں کی تیاری میں اور ان کو اپنی جگہ پر لگانے میں کتنے لوگوں کی محنت شامل ہو گی۔ پورے سندھ سے جو لوگ جلسہ میں شرکت کے لئے آئے تھے ان کا انفرادی وقت کتنا خرچ ہوا ہو گا؟ سرکاری گاڑیاں کتنی استعمال ہوئیں؟ ملک کی اہم شخصیات جن میں وزراء،رو¿سائ، ایم این اے، ایم پی اے، بڑے سرکاری افسران ، انتظامیہ ، رضا کار کتنے لوگوں کا قیمتی وقت اس جلسہ کی نذر ہوا ہو گا؟خود وزیر اعظم پاکستان کی کتنی مصروفیات متاثر ہوئی ہوں گی؟ جو لوگ چوبیس گھنٹے قبل جلسہ گاہ میں اپنی جگہ محفوظ کرنے کی خاطر پہنچ گئے تھے ان کا کتنا وقت ضائع ہو ا ہو گا؟ان سارے نقصانات کے بدلے میں ہمیں کیا ملا؟ ہماری قوم کو اور ہمارے ملک کو کیا ملا؟ صرف ایک تقریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو ہم ٹی وی پربھی دیکھ سکتے تھے۔ جو ریڈیو پر بھی سن سکتے تھے۔ صرف ایک تقریر کی خاطر کروڑوں روپے کا نقصان اور اربوں کھربوں بلکہ انمول وقت کا اصراف۔۔۔۔۔۔ کہاں کی دانشمندی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وزیر اعظم نے ریڈیو اور ٹی وی پر مخاطب ہونے کی بجائے براہ راست جلسہ کو کیوں ترجیح دی۔ کیا یہ صرف سیاسی ہوس نہیں کہ لاہور میں آئی جے آئی کا جلسہ ہو گا اور ہم یہ ثابت کر دکھائیں گے کہ اکثریت ہماری ہے بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صرف اتنی سی بات ثابت کرنے کیلئے اتنے پاپڑ بیلے گئے۔صرف نواز شریف کو نیچا دکھانے کیلئے اتنانقصان برداشت کیا گیا۔آخر ایسا کیوں ہے ؟ پوچھنے والے ہم سے ضرور پوچھیں گے کہ ہم صرف پیپلز پارٹی کے جلسے کی بات کئے جا رہے ہیں ۔ اخراجات اور نقصانات کا تخمینہ لگائے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کو کچھ نہیں کہتے حالانکہ وہی حرکت تو انہوں نے بھی کی ہے۔ تو ہم اس کے جواب میں اتنا ہی عرض کریں گے کہ اگر بچے شرارت کریں تو بڑوں کو اس میں شامل نہیں ہو جانا چاہئے ۔ ویسے آئی جے آئی کے جلسے کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ ۱۱ ستمبر قائد اعظم کا یوم وفات ہے اور اس دن سربراہ مملکت تو قوم سے خطاب کر سکتا ہے جلسوں جلوسوں کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ہاں اگر جلسے ہوں بھی توخالصتاً اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے نہ کہ سیاسی اکھاڑہ تیار کرنے کیلئے۔ اس وقت مرکز اور پنجاب کے درمیان اس طرح سے کشمکش چل رہی ہے جیسے کہ انتخابات سر پر ہوں۔ اور دو پارٹیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک پارٹی جلسے کو کامیاب بنانے کی کوشش کرے۔ ہم تمام سیاستدانوں بشمول وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے ایک ہی سوال کرنے کی جسارت کرنا چاہتے ہیںکہ ہم سب کو اپنے ملک اپنی سرزمین اپنی مٹی سے کتنا پیار ہے۔ کیا اتنا کہ ہم اپنے ملک کے ستونوں کو جن پر ملک کی انتظامی مشینری کی عمارت کھڑی ہے۔ جلسوں اور جلوسوں میں کھڑے کر کے ان کا قیمتی وقت ضائع کریں۔ ہم قوم کا خون پسینے سے کمایا ہوا سرمایہ کروڑوں کی مقدار میںایک تقریر کی نذر کر دیں۔ کیا یہ نوجوان اپنا یہی قیمتی وقت کسی تعمیری کام میں صرف نہیں کر سکتے تھے۔ کیایہ افسران اپنا یہی وقت ملک و قوم کی کسی خدمت کسی اہم ذمہ داری کو نبھانے کسی انتظامی فرض کی ادائیگی میں خرچ نہیں کر سکتے تھے؟ کیا یہی کروڑوں روپے سندھ یا پنجاب یا قوم کے کسی طبقے کی خوشحالی پر خرچ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ادھر نواز شریف صاحب بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ وہ بھی خاندانی رئیس ہیں۔ پیسے کی کمی ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ انہوں نے بھی یہی کیا۔”جہاز سمندر میں رکے ہوئے ہیں اتنے دن ہو گئے ۔“ اس بات کا ڈھنڈورہ تو خوب پیٹتے ہیں کہ مرکزکی دھاندلی اور نا انصافی کی وجہ سے اتفاق فونڈری کو کروڑوں کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ جہاز کو ویگنیں فراہم نہیں کی جا رہیںجس کی وجہ سے ملکی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مگر جلسے پر کئے گئے خرچ سے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ملک کی محبت، خوشحالی، ترقی اور خدمت کی بات تو کرتے ہیں مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون ہے جو صحیح معنوں میں ملک سے محبت رکھتا ہے۔ یہ ہر فرد کے اعمال سے خوب پتہ چل جاتا ہے۔ صرف اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خرچہ کرنا قومی خزانے کو نقصان پہنچانا اور قوم کا قیمتی وقت ضائع کرنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔ اسی لئے تو ہم کہتے ہیں کہ
ہمیں تم سے پیار کتنا یہ ہم نہیں جانتے۔
٭٭٭٭٭٭٭
(مطبوعہ: روزنامہ ”کامران“ کراچی،۵۱ ستمبر ۹۸۹۱ئ)
0 تبصرے