Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ڈرگ مافیا کے خونی پنجے

 ڈرگ مافیا کے خونی پنجے


دنیا کے بڑے بڑے اور منظم ترین مافیا کی آمدنی کا دارومدار ہیروئن پر ہے۔ دنیا میں اب بڑے پیمانے پر اسمگلنگ صرف اسلحہ اور ہیروئن کی ہو رہی ہے۔ اور دنیا بھر میں سپلائی ہونیوالی ہیروئن کی بڑی مقدار پاکستان سے اسمگل کی جاتی ہے۔ منشیات کی عالمی منڈی میں پاکستان سے اسمگل ہو کر پہنچنے والی ہیروئن اہم ترین جنس اور منڈی کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔ پاکستان قانونی برآمدات کے معاملہ میں تو ایک پسماندہ ملک قرار دیا جاتا ہے مگر یورپ اور امریکہ کی زیر زمین دنیا اورجرائم پیشہ افراد کے درمیان پاکستان سے آنیوالی وہائٹ اور براو¿ن شوگر کی کسی مقدس شے کی طرح پزیرائی کی جاتی ہے۔ ہیروئن کی اسمگلنگ نے پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں ہیروئن کی تیاری اور اس کی اسمگلنگ کا آغاز جنگ افغانستان کے آغاز اور ایرانی انقلاب کے بعد ہوا۔ انقلاب ایران کے بعد ایران میں منشیات کے اسمگلروں پر سختیاں شروع ہوئیں اور چوراہوں میں ان کی لاشیں لٹکائی جانے لگیں تو منشیات کے اسمگلر ایران سے فرار ہو کر پاکستان میں داخل ہونے لگے۔ اور کوئٹہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ دوسری طرف افغان جنگ کے نتیجہ میں پاکستان میں کلاشنکوف کلچر کا آغاز ہوا۔ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب اور پاکستان میں قبائلی علاقہ جات میں پوست کی بڑے پیمانے پر کاشت کی جانے لگی۔ اور جگہ جگہ ہیروئن کی فیکٹریاں قائم ہو گئیں ۔پوست کی کاشت آسان ترین کھیتی باڑی ہے۔ جبکہ ہیروئن کی فیکٹری ایک غسل خانے جتنی جگہ میں چند ڈبوں کی مدد سے قائم ہو جاتی ہے۔ذرا سی محنت سے اتنی قیمتی چیز کی تیاری نے قبائلی علاقوں کو چونکا کے رکھ دیا۔ اور اس طرح بڑی مقدار میں ہیروئن کی تیاری شروع ہو گئی۔ ہیروئن کی تیاری کے ساتھ ہی اس کے اسمگلر بھی خودرو پودوں کی مانند ظاہر ہونے لگے۔ پہلے پہل تو یہ ہیروئن صرف بین الاقوامی منڈی میں ہی اسمگل کی جاتی رہی۔ پاکستان میں دو ہزار روپے کلو ملنے والی ہیروئن بین الاقوامی منڈی میں لاکھوں روپے میں فروخت ہونے لگی۔ اس کاروبار میں آنیوالے نئے نئے شوقین اتنا بڑا منافع دیکھ کر حیران رہ گئے۔ نتیجتاًہیروئن کی تیاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ اور بین الاقوامی منڈی کی طلب سے کہیں زیادہ ہیروئن پاکستان میں تیار ہونے لگی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ فالتو مال کیلئے نئی منڈیاں تلاش کرنا پڑیں اور اس طرح ہیروئن کی فروخت پاکستان میں بھی شروع ہو گئی۔ اور اس گھناو¿نے کاروبار کو اس قدر وسعت ملی کہ اب پاکستان کے ہر شہر ، قصبہ اور بڑے بڑے گاو¿ں میں ہیروئن بآسانی دستیاب ہو سکتی ہے۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ملکی ایجنسیوں کے ذریعہ کئی بار افغانستان قبائلی علاقہ جات اور صوبہ سرحد کے بعض علاقوں میں بڑے پیمانے پر پوست کی فصل کو تباہ کیا گیا مگر اس کے باوجود پوست کی کاشت اس طرح جاری ہے اور ہیروئن کی تیاری بھی بدستور جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک کلو پوست سے ایک سو گرام ہیروئن تیار ہوتی ہے۔ پوست سے کوڈین اور مارفین تیار کی جاتی ہے۔ کوڈین کھانسی کے شربت جبکہ مارفین آپریشن کے وقت بے ہوشی کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ اس مارفین کو ایسٹک اینڈ ہائیڈرائڈ (ایک قسم کا تیزاب) اور دیگر کیمیکلز کے ساتھ پراسیس کر کے ہیروئن تیار کی جاتی ہے ۔ بڑی مقدار میں پوست کے کاشتکار ہیروئن خود ہی تیار کرتے ہیں۔ جبکہ بعض پوست کو بازار میں فروخت کر دیتے ہیں۔ جہاں سے ہیروئن تیار کرنے والے اسے خرید کر لے جاتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہیروئن کی تیاری میں استعمال ہونے والا تیزاب کہیں بھی تیار نہیں ہوتا بلکہ یہ بیرونی ممالک خصوصاً بھارت سے اسمگل ہو کر آتا ہے ۔ پہلے یہ کھلے عام مل جاتا تھا مگر اب یہ صرف پرمٹ پر ہی درآمد کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ تیزاب دستیاب نہ ہو تو ہیروئن تیار ہو ہی نہیں سکتی۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہیروئن کے سینکڑوں چھوٹے بڑے گروہ ہیں یہ ڈیلر پشاور اور دیگر علاقہ جات میں ہیروئن کے تیارکنندگان سے ٹیلی فون یا خود جا کر بڑی مقدار میں ہیروئن کا سودا کر لیتے ہیں۔ یہ بڑے ڈیلر ملک کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے چھوٹے بیوپاریوں کو ان کی ضرورت کے مطابق مال سپلائی کرتے ہیں۔جن سے چھوٹے ایجنٹ ایک کلو سے پانچ کلو تک ہیروئن خریدتے ہیں اور یہ ایجنٹ پرچون میں ہیروئن کے عادی لوگوں کو فروخت کرتے ہیں۔ عموماً انہوں نے مقامی پولیس کے تعاون سے اپنے اڈے قائم کررکھے ہیں۔ جہاں سے ہیروئن کے عادی لوگ اپنی ضرورت کے مطابق ہیروئن لے جاتے ہیں۔ بعض مقامات پر گھوم پھر کر بھی ہیروئن فروخت کی جاتی ہے۔ 

موبائل فون کی سہولت نے ہیروئن اور دیگر منشیات کے اسمگلروں کو اور بھی آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ یہ لوگ دو سے تین گاڑیوں کے قافلے کی شکل میں سفر کرتے ہیں۔ پہلی گاڑی منشیات سے خالی ہوتی ہے۔ اگر راستے میںکہیں چیکنگ ہوتی ہے تو پہلی گاڑی کا ڈرائیور منشیات سے بھری گاڑی کو موبائل فون سے اطلاع کر دیتا ہے جو گاڑی کو ناکے پر لے جانے سے پہلے ہی روک دیتا ہے۔ ملک کے اندر ہیروئن کی اسمگلنگ کیلئے مختلف روٹ استعمال کئے جاتے ہیں ۔ اور مختلف اقسام کی گاڑیوں اور سواریوں کے ذریعے یہ اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایسے ایسے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں کہ انسانی عقل حیران و ششدر رہ جاتی ہے۔

اسمگلروں کا سب سے اہم روٹ جی ٹی روڈ ہے۔ ہیروئن پنجاب میں سب سے پہلے راولپنڈی پہنچتی ہے۔ اگر پنجاب میں ہی تقسیم ہونا ہو تو جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور پہنچ جاتی ہے اور یہاں سے آگے سپلائی ہو جاتی ہے۔ اگر مال کراچی پہنچانا ہو تو راولپنڈی سے میانوالی ملتان کے راستے پہنچایا جاتا ہے۔ پشاور سے پنجاب تک مال پہنچانے کا ایک راستہ مردان ہری پور سے دریائے اٹک کے کنارے کنارے کچا راستہ ہے۔ اسمگلر تربیلا کے نزدیک سے دریائے اٹک پار کرتے ہیں۔ یہ راستہ استعمال کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھا جاتا ہے کہ مین روڈ پر نہ چلا جائے۔ بلکہ کچے راستے پر قدیم سواریوں مثلاً اونٹ اور گدھوں پر سفر کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے کشتیاں بھی استعمال ہوتی ہیں۔قبائلی علاقہ جات سے بلوچستان کی جانب بھی ہیروئن کی اسمگلنگ کی جا رہی ہے۔ یہ سستا آسان اور محفوظ راستہ ہے۔ قبائلی علاقہ جات سے کوہاٹ اور بنوں سے ہوتی ہوئی ہیروئن کوئٹہ پہنچتی ہے۔ پھر بلوچستان کے ساحلی علاقہ سے کھلے سمندر کے ذریعے ہیروئن ملک سے باہر اسمگل کر دی جاتی ہے۔بین الاقوامی منڈی تک ہیروئن کی اسمگلنگ کیلئے بھی مختلف راستے اختیار کئے جاتے ہیں۔ ہوائی جہاز کے ذریعے پشاور کراچی اسلام آباد اور لاہور کے ائیر پورٹوں سے اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ جبکہ اگر بھاری مقدار میں ہیروئن کی اسمگل مقصود ہو تو سمندر کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ بحری جہازوں اور موٹر بوٹس کے ذریعے کراچی اور بلوچستان کے ساحل سے منوں کے حساب سے ہیروئن اور دیگر منشیات کی بیرون ملک اسمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان سے اسمگل کی جانے والی ہیروئن کی منڈی نیو یارک، ہالینڈ،برطانیہ، آسٹریلیا، مڈل ایسٹ میں دبئی اور سعودی عرب ہے۔ ان ممالک میں موجودمنشیات فروش خطرناک حد تک منظم اور طاقتور ہیں۔ اکثر ممالک میں تو یہ منشیات فروش بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہیروئن کے اسمگلر پاکستان میں سیاستدانوں کے روپ میں ہیں یہ لوگ اسمبلیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ حکومت پر ان کا اثر و رسوخ ہے۔ حکومت کی تبدیلیوں تک میں ان کا بڑا کردار ہے۔ یہ اسمگلر مختلف ادوار میں حکومت اور اپوزیشن میں رہے ہیں۔ سب سے مشکل کام ان منشیات فروشوں کو پکڑنا ہے۔ جو حکومت کی گود میں بیٹھے ہوتے ہیں۔جن کی مثال پی پی کے رکن قومی اسمبلی منور منج کی گرفتاری ہے۔ جس کی کار سے 30 کلو ہیروئن اور 35 کلو چرس برآمد ہوئی۔ دوسری مثال رینالہ خورد میں ہونیوالے ایک آپریشن میں ایک سیاستدان سردار گجر کے اڈے سے 143 کلو ہیروئن، 985 کلو چرس اور 123 کلو افیون برآمد کی گئی۔مسلم لیگ (ج) کے رکن اسمبلی خالد پرویز ورک کے بھائی سابق رکن اسمبلی جاوید ورک اور اس کے تین سگے بھائیوں کو بھی ہیروئن فروشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔منشیات فروشی کی سخت سزاو¿ں اور منشیات فروشوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں نے اسمگلروں کو محتاط کر دیا ہے۔ ان کے ایجنٹ اگرچہ بدستو کام کر رہے ہیں۔ مگر بڑی مچھلیاں اب اسمگلنگ کے مال کو براہِ راست اپنے پاس نہیں رکھتیں۔ انہوں نے اپنے ایجنٹوں کے نام پر اراضی اور کاریں لے رکھی ہیں۔ جنہیں اسمگلنگ کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق منور منج کی گرفتاری سے قبل انٹی نارکوٹکس کے حکام کو اطلاع ملی تھی کہ بھائی پھیرو ، اوکاڑہ اور منڈی بہاو¿الدین کے راستوں پر اسمگلنگ جاری ہے۔ منور منج کی گرفتاری کے بعد اب اینٹی نارکوٹکس کے اگلے ہدف بھائی پھیرو اور منڈی بہاو¿الدین کے منشیات فروش ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اینٹی نارکوٹکس فورس کے حکام جلد ہی ان دو میں سے کسی ایک پر گرینڈ آپریشن شروع کریں گے۔ 1994 ءکے دوران چاروں صوبوں اور شمالی علاقہ جات سے تقریباً پونے پانچ ہزار کلو ہیروئن اور ایک لاکھ 65 ہزار کلو چرس برآمد کی گئی۔ 807 مقدمات درج ہوئے۔ اور 895 اسمگلر گرفتار ہوئے۔ سرحد میں 25,994 کلو چرس، 1417کلو ہیروئن برآمد ہوئی ۔ 210 اسمگلر گرفتار ہوئے اور 166 مقدمات قائم کئے گئے۔ پنجاب میں 15,413 کلو چرس اور 2341 کلو ہیروئن برآمد کی گئی۔ 418 اسمگلر گرفتار کئے گئے۔ جبکہ344 مقدمات رجسٹرڈ ہوئے۔ بلوچستان میں 488 کلو ہیروئن اور 100815 کلو چرس برآمد کی گئی۔645 اسمگلر گرفتار ہوئے جبکہ85 مقدمات قائم ہوئے۔ سندھ میں 23287 کلو چرس اور 545 کلو ہیروئن برآمد کی گئی۔189 ملزم گرفتار ہوئے اور 201 مقدمات درج ہوئے۔ شمالی علاقہ جات میں 41 کلو چرس اور ایک کلو ہیروئن برآمد ہوئی 14 ملزم گرفتار اور 11 مقدمات درج ہوئے۔ 1995 ءکے پہلے چھ ماہ میں منشیات کی برآمدگی اور گرفتاریوں کی شرح 94 ءسے کہیں زیادہ ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ برآمدگیاںاور گرفتاریاں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہیں۔ یہ گرفتاریاں اور برآمدگیاں اصل کی پانچ فی صد حصہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں اس وقت سینکڑوں چھوٹے بڑے گروہ اس گھناو¿نے کاروبار میں ملوث ہیں۔ اس کاروبار میں دولت بے انتہا ہے اور اسی کے بل بوتے پر ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ دولت کے زور پر انتظامیہ اور پولیس کو خرید لیا جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اینٹی نارکوٹکس کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل صلاح الدین ترمذی کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے اخبار نویسوں سے کہا تھا کہ اگرچہ ہمارا تعلق فوج سے ہے۔مگر منشیات کے اسمگلروں کے سلسلہ میں ہم پر اس قدر دباو¿ ڈالا جاتا ہے اور سفارشوں کے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں کہ ہمارے لئے کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اور بعض اوقات تو یہ دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ایک طرف نکل جائیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پاکستان میں ہیروئن پولیس کی مدد سے فروخت ہو رہی ہے۔ ایس ایچ او کی مرضی کے خلاف منشیات کا کاروبار ہو ہی نہیں سکتا۔ میجر جنرل صلاح الدین فوج کے حاضر سروس میجر جنرل ہیں اور انہیں پورے اختیارات کے ساتھ اینٹی نارکوٹکس کا ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا گیا تھا۔ ان کے منہ سے نکلے ہوئے بے بسی کے یہ الفاظ یقینا ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔!

٭٭٭٭٭٭٭

ڈرگ مافیا کے خونی پنجے

مطبوعہ: ماہنامہ ”اجرک“ کراچی جولائی 1995 ء

 مزید پڑھیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے