آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے __________________________ضیاءصابری
پولیس کا محکمہ معاشرے میں عوام کو تحفظ اور امن و امان فراہم کرنے کیلئے تشکیل دیا جاتا ہے ہر اس لمحہ جب کوئی بھی شہری خود کو غیر محفوظ تصورکرے یا اسے کسی بھی قسم کی کوئی مشکل درپیش آ جائے تو وہ پولیس سے مدد طلب کرنے کا قانونی حق رکھتا ہے اور پولیس کا فرض ہے کہ وہ ہر ایسے وقت میںاس شہری کی ہر ممکن مدد کرے اسے قانونی تحفظ فراہم کرے۔ یوں محکمہ پولیس شہریوں کے محافظ کا کردار ادا کرتا ہے مگر ہمارے یہاں پولیس شروع سے ہی محافظ کے بجائے لٹیرے کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔پہلے پہل تو یہ صرف محاورے کی حد تک لٹیرے تھے مگر آج کل تو حقیقتاً لٹیروں اور راہزنوں کا کردار ادا کر رہے ہیں شروع میں یا آج تک بھی عام طور پر پولیس کو رشوت خوری کے سلسلہ میں شہرت حاصل ہے۔ مگر گزشتہ دنوں کوٹری پل پر واقع پولیس چوکی پر تعینات عملہ نے اس سے بھی بڑھ کر کارنامے انجام دینا شروع کر دئےے ہیں۔ بعض خبروں کے مطابق وہاں تعینات پولیس اہلکار رات کو پل سے گزرنے والی گاڑیوں سے نقدی اور دوسر ا قیمتی سامان لوٹنے میں مصروف رہے۔ ایک اطلاع کے مطابق خورشید کالونی سے آنے والی سبزی کے بیوپاریوں کی ایک سوزوکی صبح چھ بجے کے قریب پل پر پہنچی تو اسے چیکنگ کی غرض سے روکا گیا مگر تین مسلح افراد جو پولیس اہلکار تھے، ہتھیاروں کے زور پر سوزوکی میں سوار بیوپاریوں سے پانچ ہزار روپے نقد اور کلائی گھڑیاں چھین لیں اور دھمکی بھی دی کہ اگر اس واقعہ کی رپورٹ کی گئی تو انہیں اس کی سزا ملے گی۔ اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات تقریباً روزانہ ہوتے رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس کے علاوہ بھی آج کل اخبارات میں اکثر خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ فلاں ڈاکے میں فلاں پولیس افسر شامل تھا اور فلاں ڈاکو کو پناہ دینے والا پولیس اہلکار تھا۔ اسی طرح سانگھڑ کے سابق ڈی ایس پی کو بھی فراڈ کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اور اس طرح کے بےشمار واقعات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس چراغ کو گھر میں روشنی کیلئے جلایا گیا تھا اسی چراغ سے گھر کو آگ لگ جائے تو پھر عام شہری کا احساس تحفظ کس طرح قائم رہ سکتا ہے۔ جب محافظ ہی لٹیرے بن جائیں جب باڑھ ہی باغ کو کھانے لگے تو پھر کیسا تحفظ اور کیسے محافظ ۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں کا نظام اس قدر بوسیدہ اور پیچیدہ ہے کہ ایسے ستمگروں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ سر سے لے کر پاو¿ں تک ہمارا معاشرہ کینسر زدہ ہو چکا ہے۔ کس کس کو سدھارئےے گا۔ اگر ایسے کیس پکڑے بھی جائیں ملزمان گرفتار، عدالت میںکیس شروع ہوا مگر اس کے فیصلے میں سالہا سال صرف ہو جاتے ہیں اور ملزمان ضمانت پر گھر بیٹھے ہوتے ہیں اور یہی تاخیر ملزمان کو اپنا بچاو¿ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اسی وقفے اور مہلت سے وہ فائدہ اٹھا کر متعلقہ افسران سے جوڑ توڑ کر کے معاملہ کو رفع دفع کرا لیتے ہیں اور پھر دندناتے پھرتے ہیں۔ اور اس کے بعداس کی نظروں میں ایک عجیب سا تمسخر اور گردن میں اکڑ آ جاتی ہے کہ میرا کسی نے کیا بگاڑ لیا۔ جس ایماندار پولیس افسر نے اسے گرفتار کیا تھا پھر وہ اسی کے سامنے اور بھی زیادہ گردن اکڑا کر چلتے ہیں اور وہ بیچارہ اپنی ایمانداری پر خون کے آنسو بہاتا رہ جاتا ہے۔
ذرا سوچنے کی بات ہے کہ اگر ایک شخص لاکھوں روپے کا فراڈ کرتا ہے یا رشوت لیتا ہے تو کیا وہ اس پیسے سے چند لاکھ اپنی نوکری عزت اور لوٹ کا مال بچانے کیلئے خرچ نہیں کر سکتا اور جس انکوائری افسر کو بیٹھے بٹھائے لاکھ دو لاکھ روپے نذرانہ مل جائے تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ اس ”شریف“ آدمی پر خوامخواہ کیچڑ اچھالے۔لہٰذا چند ہی دنوں میں ملزم با عزت بری کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ گرفتاری کے وقت بتایا جاتا ہے کہ ملزم کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب ملزم رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تو پھر اس کے علاوہ اور کونسا ثبوت درکار ہوتا ہے اسے سزا سنانے کیلئے لیکن نہیں شاید پاکستان میں قانون اس کے علاوہ بھی کچھ مانگتا ہے اور وہ کچھ مل جانے پر ملزم فوری ملزم سے حاجی صاحب، اور شریف آدمی اور باعزت شہری بن جاتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی کیس میں ملوث کسی بھی فرد کو ثبوت ملتے ہی فوری طور پر سزا سنا دی جائے اور یہ سزا اتنی عبرتناک ہو کہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے کا تصور بھی نہ کر سکے۔ صرف اسی صورت میں کچھ بہتری پیدا ہو سکتی ہے وگرنہ عوام لٹتے رہیں گے۔
(مطبوعہ : روزنامہ ”نوائے آسمان“ حیدرآباد 21 جنوری1991 ئ)

0 تبصرے