نظام تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت _______________________________ ضیاءصابری
ہماری نوجوان نسل آجکل بے راہروی کا شکار ہے۔بڑے چھوٹے کاادب و احترام نا پید ہو چکا ہے۔ ایک ہمارا زمانہ تھا کہ اگر کوئی اچھی بات کوئی اجنبی بزرگ بھی کہتاتھا تو بچے اور نوجوان اس کا خیر مقدم کرتے تھے اور اس کی نصیحت پر عمل کرتے تھے۔ مگر آجکل نوجوان اجنبی تو درکنار اپنے ماں باپ اور آباو¿اجداد کو بھی خاطر میں نہیں لاتے اور بر ملا کہہ دیتے ہیں کہ آپ کو کیا پتہ ہے۔اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ ایک چبھتا ہوا سوال ہے۔ آئےے اس کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں آج اور کل کا کچھ موازنہ کرنا پڑے گا۔
زیادہ نہیں آج سے فقط بیس پچیس سال پہلے ہی کی بات ہے ، جب ہمارا طالبعلم صرف اور صرف تعلیم سے ہی شغف رکھتا تھا۔ اور دوسری منفی سرگرمیوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا۔ استاد کو دیکھ کر طالب کو سانپ سونگھ جاتا تھا اور اس کی مجال نہیں تھی کہ وہ چوں چرا کر سکے۔ استاد کا ادب والدین اور بزرگوں کا ادب و احترام طالبعلم اپنا فرض سمجھتا تھا۔ مگر آج سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اکثر و بیشتر اساتذہ کی تذلیل و توہین حتیٰ کہ مار پیٹ کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اور طالب عمل اپنے ان کارناموں کی تفصیلات بڑے فخر سے اپنے ہمجولیوں میں بیٹھ کر بیان کرتے ہیں۔ کل ہمارا طالب علم نقل کوگھناو¿نا جرم خیال کرتا تھا اور نقل کرنے والے طالب کو توہین آمیز اور نفرت آمیز نظروں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مگر آج بوٹی مافیا نے تعلیمی اداروں کو اپنے خوفناک پنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ حتیٰ کہ والدین اور اساتذہ تک اس لعنت میں باقاعدہ طور پر شریک ہو جاتے ہیں کل کا طالب علم ہزاروں لاکھوں کا حساب انگلیوں پر کر سکتا تھا مگر آج دو اور دو چار کا جواب لینے کے لئے کیلکولیٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔ کل کا طالب تحریک پاکستان کے کارکنوں اور قائد اعظم ، لیاقت علی خان،محترمہ فاطمہ جناح، علامہ اقبال جیسے اپنے محسنوں کو خوب پہچانتے تھے اور ان کی بھرپور عزت و تکریم کرتے تھے۔ اور آج کے طالب کو اگر محمد علی جوہر کی تصویر دکھا کر پوچھا جائے کہ یہ کون ہے تو بمشکل ہی بتا سکے گا۔ قائد اعظم اور پاکستان کو گالیاں دی جاتی ہیں ۔ حتیٰ کہ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے۔ پاکستان بھی کوئی رہنے کی جگہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔آخر ان سب تبدیلیوں کی وجوہ کیا ہیں؟ کیا ہمارے ارباب اختیار نے کبھی یہ سوچا ہے۔ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ ان کو تو اپنے اقتدار کو بچانے اور مال کمانے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ اگر مجھ جیسے ایک عام پاکستانی کی نظر اس مسئلے کی طرف جا سکتی ہے تو جن کے ہاتھوں میں مملکت خدا داد پاکستان کی باگ ڈور ہے اور جنہوں نے اس کے ہر اچھے برے معاملہ کی چھان پھٹک کرنا ہے ان کی نظر اس مسئلہ کی طرف کیوں نہیں جاتی۔ آئےے اقتدار کے محلات میں رہنے والو! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ان تمام برائیوں کی جڑ کہا ں ہے؟
طالبعلم کی تعلیم سے دلچسپی کم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کو آپ سیاستدانوں نے اپنی سیاست کو مضبوط کرنے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ تعلیمی ادارے سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ وہاں جمعیت طلباءاسلام، جماعت اسلامی، ایم ایس ایف، پی ایس ایف وغیرہ کا راج ہے جو لڑکا ان جماعتوں میں شامل نہیں ہوتا۔ اسے سکول یا کالج میں ٹکنے ہی نہیں دیا جاتا۔ اس لئے آج کا طالب علم پیدا ہوتے ہی سیاستدان بن جاتا ہے۔ آج کا طالب اساتذہ، والدین اور بزرگوں کا احترام اس لئے نہیں کرتا کہ اسکو یہ تعلیم ہی نہیں دی جاتی۔ پرانے سلیبس میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ ہماری اسلامی اور معاشرتی قدروں کو اجاگر کیا جائے۔ مگر آج کے سلےبس میں ہم انگریزی، یہودی اور لادینی قدروں کو اجاگر کر رہے ہیں ۔ آپ سلیبس اٹھا کر دیکھیں آپکو سب کچھ نظر آ جائے گا۔ اساتذہ طلباءکے ہاتھوں اس لئے پٹتے ہیں کہ پہلے اگر کوئی استاد اپنے طالب علم کو کسی غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ کرتا تھا یا مار پیٹ بھی لیتا تھا تو وہ طالب علم جب اپنا سوجا ہوا ہاتھ یا چہرہ لے کر گھر جاتا تھا اور والدین کے پوچھنے پر بتاتا تھا کہ مجھے استاد نے مارا ہے تو والدین بھی اپنے بچے کو ہی کہتے تھے کہ ضرور تم نے کوئی غلطی کی ہو گی جس کی سزا تمہیں ملی ہے۔ مگر آج اگر ایسا واقعہ ہو جائے تو والدین باقاعدہ چار غنڈوں کو ساتھ لے کر سکول یا کالج میں استاد سے بھڑنے کیلئے پہنچ جاتے ہیں۔ ہم بڑوں کے اس رویہ کو دیکھ دیکھ کر بچوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ استاد کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ گمان پختہ ہوتے ہوتے نوجوانی کے عالم میں یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ استاد ہمار تنخواہ دار ملازم ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کرو۔ نقل کا رحجان بھی صرف اس لئے بڑھ رہا ہے کہ ہم بزرگوں نے خوداس کی حوصلہ افزائی اور مدد شروع کر دی ہے۔ اور ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ بچے کا امتحان ہو رہا تھا ذرا ہیلپ کے لئے گیا تھا۔ قابلیت کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ پرانے زمانے میں جو حساب پڑھایا جاتا تھا وہ عام زندگی میں استعمال ہوتا تھا۔ ضرب، تقسیم، جمع،تفریق، تجارت وغیرہ کے سوالات عام زندگی سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر آج کے سلیبس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق بنتا ہی نہیں ہے ۔ یہ سلیبس ترقی یافتہ قوموں کے بچوں کیلئے تو ہو سکتا ہے مگر ہمارے معاشرے کیلئے بالکل فٹ نہیں ہے۔ اور سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل نظریہ پاکستان سے بہت دور چلی گئی ہے۔ ان کو اپنے محسنوں کے نام تک یاد نہیں ہیں اور جن کے نام آتے بھی ہیںان سے سخت ناراض ہیں۔ جنہیں ہم عرف عام میں آجکل اینگری ینگ مین کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ یہ ناراض نوجوان کس نے پید ا کیا ہے۔ یہ ہم اور آپ نے پیدا کیا ہے۔ یہاں میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں، ہماری پنجاب یونیورسٹی کے کیلنڈر میں نظریہ پاکستان نام کی کوئی چیز شامل نہیں ہے۔ عام قارئین کیلئے اس کیلنڈر کی تھوڑی سی وضاحت کر دوں ۔ یونیورسٹی کیلنڈر وہ دستاویز ہے جس میں یونیورسٹی کے قیام کے اغراض ومقاصد درج ہوتے ہیں۔ جس طرح کوئی بھی تنظیم سب سے پہلے اپنے اغراض و مقاصد مرتب کرتی ہے اسی طرح یونیورسٹی بھی اپنے قیام سے پہلے اپنا کیلنڈر ترتیب دیتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی1860 ءمیں قائم ہوئی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تو انگریز کی حکومت تھی اور نہ ہی اس وقت پاکستان کا کوئی تصور تھا مگر پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہمارے ارباب اختیار کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے کیلنڈر میں نظریہ پاکستان کو اجاگر کرنا بھی شامل کر لیتے۔ جو نہیں ہو سکا۔ اس صورت حال سے آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ جب ہماری یونیورسٹی کے مقاصد میں یہ شامل ہی نہیں تو پھر ہمارے نصاب میں شامل تحریک پاکستان، نظریہ پاکستا ن اور حب الوطنی سے متعلق جو بھی مواد ہے وہ ہمارے بچوں کے کچے ذہنوں میں گھر کیسے کر سکتا ہے۔ کہ ہم اس کو سرسری سے اور عام چیز سمجھ کر مجبوراً نصاب میں شامل کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ ہمارے اغراض ومقاصد میں شامل نہیں ہے۔
میں اپنی بحث کو سمیٹ کر نظام تعلیم میں تبدیلی کی بات کرتا ہوں۔ نظام تعلیم میں اس طرح کی تبدیلی کی جائے جس سے ہماری اسلامی روایات اور اخلاقی اقدار اجاگر ہوں۔ قرآن و سنت کی تعلیم زیادہ سے زیادہ دی جائے تاکہ ہمارے بچے کو یہ پتہ چل سکے کہ اس پر کیا کیا فرائض ہیں جب وہ اپنے فرض پورے کرنے کا عادی ہو جائے گا تو اس کو حقوق خود بخود مل جائیں گے۔ اور دوسرے یہ کہ والدین اپنے بچوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریا ں پوری کریں اور جن باتوں کا راقم نے اوپر ذکر کیا ہے ان پر غور کر کے اپنا کردار خود متعین کر لیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
0 تبصرے