انشائیہ
ناک
تحریر: ضیاءصابری
ناک انسانی جسم کا ایسا حصہ ہے جسے ہم ملٹی پرپز کہہ سکتے ہیں۔ اسے کئی اہم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ناک سے بُو سونگھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ بُو کسی خطرے کی بُو بھی ہو سکتی ہے، کسی پھول کی ، کسی گندی چیز کی بھی ہو سکتی ہے۔ یہ ہوتی تو بُو ہی ہے مگر انسان نے اپنی آسانی کے لیے انہیں مختلف نام دے رکھے ہیں مثلاً خوش بو، بد بو، تعفن، خطرے کی بو، منافقت کی بو وغیرہ، مگر ناک بڑی کارآمد چیز ہے اسے صرف بُو سونگھنے تک محدود رکھنا اس کے ساتھ زیادتی ہے۔
ناک بڑی آسانی سے کٹ بھی جاتی ہے کیونکہ یہ بہت نرم ہوتی ہے اس لیے یہ بغیر چھری کے بھی کٹ سکتی ہے جیسا کہ کسی تقریب میں اپنے دوسرے رشتہ داروں سے کم خرچ کرنے سے بھی کٹ جاتی ہے،خواتین کی ناک اور بھی نازک ہوتی ہے یہ تو عام سے کپڑے پہن کر کسی کے گھر جانے سے بھی کٹ جاتی ہے۔ ناک سے چنے چبانے کا کام بھی لیا جاتا ہے مگر یہ کام ہمیشہ آپ کی ناک سے آپ کے دشمن ہی لے سکتے ہیں ، آپ خود اپنی ناک سے یہ کام نہیں لے سکتے اور اگر آپ بھی ناک سے چنے چبانے کا مظاہرہ دیکھنا چاہیں تو اس کے لیے آپ کو اپنے کسی دشمن کی تلاش کرنا ہوگی اور پھر اس دشمن کوکسی بھی معاملے میں ”نک نک“ کرنا ہوگا۔
ناک غائب بھی ہو جاتی ہے اور پھر اسے واپس لانے کے لیے بڑی تگ ودو کرنا پڑتی ہے ۔کچھ منچلوں نے اس صورت حال سے بچنے کے لیے احتیاطاً موم کی ناک بنوا رکھی ہے تاکہ اگر ناک کٹ جائے توفی الفور موم کی ناک لگا کر گزارا کر لیا جائے،مجرب ہے۔ اگر آپ اپنے کسی عزیز کی خدانخواستہ موت پر تعزیت کے لیے آئے ہوئے مہمانوں کو مرغ بریانی نہ کھلائیں تو ناک نہیں رہتی یعنی غائب ہو جاتی ہے۔ قرضہ لے کر اپنی یا اپنے بچوں کی شادی پر بے دریغ خرچ نہ کریں تو بھی ناک نہیں رہتی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ساری زندگی وہ قرضہ اتارنے میں صرف ہو جاتی ہے مگر ناک کو بچانے کے لیے وہ قرضہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ اپنی بچی کی شادی میں بڑھ چڑھ کر جہیز نہ دینے سے بھی ناک نہیں رہتی اور بعض اوقات تو ناک بھی ناک میں دم کردیتی ہے وہ ایسے ہوتا ہے کہ اپنی ناک رکھنے کے لیے قرضہ لے کر بچی کو اپنی حیثیت سے پانچ دس گنا جہیز دے کر رخصت کیا جاتا ہے مگر چند ہی ماہ بعد وہ بچی اپنے خاوند سے جھگڑ کر واپس میکے میں آجاتی ہے اور والدین صرف اس لیے اس کے خاوند سے صلح صفائی کی بات نہیں کرتے کہ پھر ناک خطرے میں پڑ جاتی ہے مگر جب برادری کے کچھ معتبر لوگ آ جائیں اور صلح کرنے کے لیے دباو¿ ڈالیں تو پھر صلح کرتے ہی بنتی ہے کیونکہ یہاں بھی ناک ہی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
خواتین کی ناک سے ایک اور کام بھی لیا جاتا ہے جو مرد حضرات نہیں لے سکتے۔ خواتین اپنی چادر کا پلو بھی ناک پر اٹکا کر نقاب کرتی ہیں اگر ناک نہ ہوتی تو دنیا کی ساری خواتین بے پردہ ہوجاتیں اور انہیں چادر کا پلو اٹکانے کے لیے کوئی سہارا میسر نہ آتا۔الغرض ناک انسانی جسم میں بہت کارآمد چیز ہے اس کی قدر کرنا چاہیے اور اس کی حفاظت کے لیے انسان کو اپنی تمام تر کوشش کرنا چاہیے ، چاہے ساری عمر قرضے میں گزر جائے، چاہے گھر کا بجٹ درہم برہم ہو جائے، چاہے بیٹی سسرال سے لڑ کر آجائے اور ساری عمر آپ کے گھر میں بیٹھ رہے، چاہے کچھ بھی ہو جائے مگر ناک کی حفاظت ہمارا فرض اولین ہے اور اسے قائم رکھنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھا لینا چاہیے جس سے ناک نہ رہے۔ ہمارے خیال میں ناک کا سب سے مثبت استعمال صرف خواتین کرتی ہیں جب وہ چادر کا پلو ناک پر اٹکا کر شرم وحیا کا پیکر بن جاتی ہیں ۔ باقی سارے کام ناک کو بچانے کے لیے اس طرح کیے جاتے ہیں جن سے ناک پھر بھی کٹ ہی جاتی ہے۔

1 تبصرے
واہ واہ واہ۔ بھئی بہت سی داد کیا بات ہے۔
جواب دیںحذف کریں