انڈیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ شخص، جس نے گذشتہ برس ملک میں ایک ایپ کے ذریعے 80 سے زائد مسلمان خواتین کی آن لائن بولی لگائی تھی، کے خلاف قانونی مقدمہ چلایا جائے گا۔پولیس کی جانب سے یہ اعلان دلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینا کی جانب سے 25 سالہ ملزم امکاریشور کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلانے کی اجازت کے بعد کیا گیا ہے۔سلی ڈیلز کے نام سے یہ اوپن سورس ایپ جولائی 2021 میں ویب پلیٹ فارم گٹ ہب پر پیش کی گئی تھی۔ملزم امکاریشور ٹھاکر کو رواں برس جنوری میں گرفتار کیا گیا تھا مگر انھیں مارچ میں ضمانت مل گئی تھی۔ملزم امکاریشور ٹھاکر جن کے پاس کمپیوٹر ایپلی کیشنز کی ڈگری ہے، کو سنگین جرائم کی تحقیقات کے لیے قائم دلی پولیس کی ٹیم نے وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے اندور شہر سے گرفتار کیا تھا۔پولیس نے ان کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات، انڈیا کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ اور انڈیا کے کریمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 196 کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔انڈیا کے قانون فوجداری میں دفعہ 196 کسی فرد کی بجائے ’ریاست کے خلاف کیے جانے والے جرائم‘ سے متعلق ہے، اور عام طور پر یہ دفعہ اعلیٰ درجے کے سرکاری اہلکاروں کے خلاف عائد کی جاتی ہے، جسے آگے بڑھنے کے لیے وفاقی یا ریاستی حکومت سے اجازت درکار ہوتی ہے۔سلی ڈیلز ایپ نے مسلم خواتین کی سوشل میڈیا پر موجود تصاویر کو استعمال کیا تھا اور ان مسلم خواتین کے پروفائلز بناتے ہوئے ان کی بولی کو ’ڈیلز آف دی ڈے‘ قرار دیا تھا۔ملزم ٹھاکر کو ایک اور ملزم 20 سالہ نیرج بشنوئی کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، جس نے مبینہ طور پر ب±لی بائی ایپ بنائی تھی جس میں 100 سے زیادہ مسلم خواتین کی تصاویر اپ لوڈ کی گئی تھیں اور اسے گِٹ ہب پر بھی ہوسٹ کیا گیا تھا۔ان دونوں واقعات میں خواتین کی اصل میں بولی یا انھیں فروخت نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد مسلم خواتین کی تذلیل اور بے عزتی کرنا تھا۔یہ مہم ان خواتین کے خلاف تھی جن میں سے بہت سی خواتین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی کے بارے میں کھل کر بولتی رہی ہیں تاہم ان کی جماعت بی جے پی اور حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے پولرائزڈ سیاسی ماحول میں حالیہ برسوں میں مسلم خواتین کی آن لائن ٹرولنگ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔انڈیا میں آن لائن ہراساں کیے جانے کے بارے میں عالمی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2018 کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ایک عورت جتنی زیادہ آواز بلند کرتی ہے، اتنا ہی زیادہ اسے نشانہ بنائے جانے کا امکان ہوتا ہے۔ایسے میں اگر وہ خاتون ملک کی مذہبی اقلیتوں اور پسماندہ ذاتوں کی ہے تو اس میں مزید شدت آ جاتی ہے۔یاد رہے کہ بلی بائی یا سلی ڈیلز دونوں ایپس پر آواز اٹھانے والی مسلم خواتین سماجی کارکن، صحافی، فنکار اور محقق تھیں۔ان خواتین میں سے ایک کمرشل پائلٹ خاتون جن کی تصویر سلی ڈیلز ایپ پر اپ لوڈ کی گئی تھی، نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھوں نے ایپ کے بارے میں سنا تو ان کے اوسان خطا ہو گئے۔مارچ میں ملزم کو ضمانت دیتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ ان کے فرار ہونے کا خطرہ نہیں اور تفتیش پر اثر انداز ہونے کی سکت نہیں رکھتے۔

0 تبصرے