Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

لنڈی کوتل میں اپنی نوعیت کا پہلا خواتین کا سائیکلنگ کیمپ ،جماعت اسلامی کا احتجاج


لنڈی کوتل میں اپنی نوعیت کا پہلا خواتین کا سائیکلنگ کیمپ ،جماعت اسلامی کا احتجاج

سابقہ قبائلی ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل میں اپنی نوعیت کا پہلا خواتین کا سائیکلنگ کیمپ لگا جس کے منتظمین کے مطابق اس میں 15 لڑکیوں نے حصہ لیا تاہم بعض حلقوں نے اسے ’قبائلی روایات‘ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔امریکی تنظیم گلوبل سپورٹس مینٹورنگ کی مدد سے جمعے کو پاکستانی سائیکلسٹ ثمر خان اور سماجی کارکن جمائمہ آفریدی نے تحصیل لنڈی کوتل میں اس سائیکلنگ کیمپ کا اہتمام کیا جس میں 15 لڑکیوں نے شرکت کی۔منتظمین کے مطابق نوجوان خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے منعقد کیے گئے اس کیمپ میں شامل ہونے والی تمام لڑکیوں کے والدین سے اجازت لی گئی تھی اور بعض والدین تو اس میں شامل بھی ہوئے تھے۔سائیکلسٹ ثمر خان نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ بعض خواتین نے حجاب اور مقامی لباس میں سائیکلنگ کی مگر کچھ لوگوں کو اس میں ’بے حیائی‘ نظر آئی ہے۔’ریپ، قتل، تیزاب کے حملے اور ناانصافی کے خلاف کوئی احتجاج کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہمیں تباہ کرنے کے لیے کسی بین الاقوامی ایجنڈے کی ضرورت نہیں۔ ہماری جہالت کافی ہے۔سائیکلنگ کیمپ کے بعد اتوار کو جماعت اسلامی نے لنڈی کوتل میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں درجنوں کارکنان نے شرکت کی۔اس دوران بعض پلے کارڈز پر لکھا تھا کہ ’فحاشی اور عریانی نامنظور‘ اور ’ہمیں پانی اور بجلی دو۔ سائیکل نہیں۔‘احتجاجی مظاہرے کے شرکا اور مقامی رہنماو¿ں نے اس سائیکلنگ کیمپ کو قبائلی اور اسلامی روایات کے خلاف قرار دیا۔ان کا دعویٰ تھا کہ خواتین کی سائیکلنگ کے نام پر علاقے میں ’بے حیاتی‘ پھیلائی جا رہی ہے۔لنڈی کوتل میں جماعت اسلامی کے رہنما مراد حسین نے سوشل میڈیا پر بتایا ہے کہ یہ احتجاج فحاشی کی روک تھام اور عمران آفریدی کی رہائی کے لیے کیا گیا۔ حتیٰ کہ مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اسے مغربی این جی اوز کا ایجنڈا قرار دیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے