Ticker

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

صحت مند پنجاب پروگرام اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیاں

 صحت مند پنجاب پروگرام اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیاں

صحت مند پنجاب پروگرام اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیاں


صحت مند پنجاب پروگرام کے تحت عوام تک معیاری اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق خوراک کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں اس سلسلے میں ڈی جی فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل اور ڈائریکٹر آپریشنز رافیعہ حیدر کی سربراہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیموں نے مختلف شہروں میں ناقص دودھ کے خلاف کریک ڈاو¿ن کرتے ہوئے مختلف مقامات پر ناکے لگا کر شہروں میں سپلائی ہونے والے دودھ کی چیکنگ کی۔ مختلف شہروں میں دودھ لے کر داخل ہونے والی 370 گاڑیوں کی چیکنگ کی گئی جن میں سے 333 میں دودھ ٹھیک پایا گیا جبکہ 37 ٹیسٹ میں ناکام رہیںمجموعی طور پر 43 ہزار لیٹر دودھ چیک کیا گیا اور 8955 لیٹر ناقص دودھ تلف کیا گیا۔ 

اس سے قبل بھی محترمہ عائشہ ممتاز نے بھی بھرپور کارروائیاں کر کے بڑے بڑے ہوٹلز، ریسٹورنٹ، بیکریاں اور دودھ کی دکانوں کو سیل کیا اور ہزاروں لیٹر دودھ،بڑی مقدار میں گوشت اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں تلف کیں۔ جس کی پاداش میں انہیں سکرین سے ہٹا دیا گیا۔ ہمارے معاشرے میں دونمبر دھندہ کرنے والے ہمیشہ سے ہی طاقتور اور بارسوخ رہے ہیں۔ اگر کوئی افسر اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے کرنا چاہتا ہے اور مجرموں کے خلاف گھیرا تنگ کرتا ہے تو اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیا جاتا اور کرپٹ مافیا اسے گھر بھیج کر ہی دم لیتا ہے۔ یہی کچھ عائشہ ممتاز کے ساتھ بھی ہوا۔ اب رافیعہ حیدر نے یہ ڈھول اپنے گلے میں ڈال لیا ہے دیکھیں کہ کب تک بجا سکتی ہیں۔

مذکورہ بالا اطلاعات سے دل کو سکون تو ملا کہ عوام کی صحت کے لئے حکومت ایکشن میں آ گئی ہے اور مضر صحت دودھ کے خلاف کریک ڈاو¿ن کیا گیا۔ آج کل یہ بات ہر آدمی جان گیا ہے کہ دودھ کے ساتھ ملاوٹ مافیا کیا کیا سلوک کرتا ہے۔ اس اللہ کے نور میں کوکنگ آئل، سرف پاو¿ڈر، بال صفا پاو¿ڈر، یوریا کھاد اور نہ جانے اور کیا کیا الا بلا ڈال کر دودھ تیار کر کے عوام کے معدوں میں انڈیل دیا جاتا ہے اگر چیک ہو گیا تو پتہ چل گیا ورنہ سب ٹھیک ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا تمام دودھ چیک ہو جاتا ہے جو کیمیکلز اور زہریلے مادوں کے ذریعے تیار کر کے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔کیاتمام گوشت چیک ہو کر عوام تک پہنچتا ہے؟ کیا بیکریوں میں تیار ہونے والا کھانے پینے کا سامان چیک ہو کر عوام تک آتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم جب چھوٹے ہوتے تھے تو قصائی کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھتے تھے کہ اس کی دکان پر لٹکے ہوئے گوشت پر کچھ مہریں لگی ہوتی تھیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے پوچھا کہ گوشت پر مہریں کس لئے لگاتے ہیں تو ہمیں بتایا گیا کہ محکمہ صحت کی طرف سے ایک ڈاکٹر کی ڈیوٹی قصاب خانے میں ہوتی ہے جو اپنے سامنے جانور کو ذبح کروا کے اور جانور کی صحت کی تصدیق کر کے گوشت پر مہر لگا دیتا ہے تاکہ عوام کو صحت مند اور حلال گوشت میسر آسکے۔ آج مدت ہوئی ہمیں ویسی مہریں کسی بھی قصاب کی دکان پر لٹکے ہوئے گوشت پر نظر نہیں آتیں۔معلوم نہیں کہ ڈاکٹر کی ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے یا ڈاکٹر اب مہر لگا کر تصدیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا یا پھر اب سرے سے قصاب ہی بے لگام ہیں کہ جو جی میں آئے کاٹ کر عوام کو کھلا دیں۔ اکثر خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں شہر میں قصائی نے گدھے کا گوشت عوام کو کھلا دیا۔ فلاں شہر میں مردہ جانور کا گوشت بک رہا تھا۔ ایسی خبریں اکثر پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔ اسی طرح پنجاب فوڈ اتھارٹی کی کارروائیوں کی خبریں بھی اکثر ملتی رہتی ہیں کہ فلاں شہر میں اتنے ہزار لیٹر دودھ تلف کر دیا گیا۔ اتنے من گوشت ضائع کر دیا گیا۔ اتنی بیکریوں کو سیل کر دیا گیا۔ اتنے ہوٹلوں کو جرمانہ کیا گیا۔ لیکن کبھی ہم نے یہ نہیں سنا کہ فلا ں شہر میں مضر صحت دودھ فروخت کرنے پر اتنے دکانداروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ 

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ مضر صحت دودھ کو نالے میں بہا دینے سے عوام کو کیا فائدہ حاصل ہوا اور اس مضر صحت دودھ کے مالک کو کیا نقصان ہوا سوائے اس کے کہ اس کا چند ہزار روپے کا دودھ ضائع کردیا گیا۔ وہ دوسرے دن اس سے دوگنا دودھ تیار کر کے عوام کے گھروں میں پہنچا دے گا۔کھانے پینے کی چیزیں ضائع کردینے سے عوام کو صحت نہیں مل سکے گی۔ دراصل ملاوٹ مافیا کے خلاف ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے جس کے تحت مضر صحت اشیاءکی تیاری، فروخت اور سپلائی کرنے والوں کو ایسی کڑی سزائیں دی جائیں تاکہ وہ عبرت کا نشان بن جائیں اور آئندہ اپنی نسلوں کو بھی ایسا کام کرنے سے منع کردیں۔ اب ان کو چند ہزار روپے جرمانہ کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے اور وہ جرمانہ کی رقم بھی دوسرے دن عوام سے ہی وصول کرلیتا ہے۔ اور عوام کو وہی زہر کھانے کو ملتا رہتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملاوٹ اور خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے نہ کہ جرمانہ کر کے چھوڑ دیا جائے اور ان کے خلاف مقدمات درج کر کے ان کو کڑی سے کڑی سزا دلوائی جائے۔ کیا ہمارے قانون میں ایسی کوئی شق نہیں ہے کہ ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہوسکے۔ کیا ان کی سزا صرف جرمانہ اور پکڑی گئی ملاوٹ شدہ اشیاءکی تلفی ہی ہے۔ کیا اس سے عوام کی صحت محفوظ ہو جاتی ہے؟ حکومت کو چاہئے کہ اگر ملاوٹ کے خلاف کوئی قانون ہے تو اس پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے اور اگر ایسا کوئی خاص قانون نہیں ہے جس کے تحت انہیں کوئی سخت سزا دی جاسکے تو اسمبلیوں کا کام قانون سازی ہی ہوتا ہے۔ اسمبلیوں میں واضح اکثریت حکمران جماعت کی ہے پھر ان کے سامنے کیا رکاوٹ ہے کہ وہ ایسا کوئی قانون منظور نہیں کرواسکتے؟ ملاوٹ کے خلاف ٹھوس حکمت عملی اختیار کر کے اس کے خلاف قانون سازی کی جائے اور چیکنگ کے دوران جن کو پکڑا جاتا ہے جب یہ ثابت بھی ہوجاتا ہے کہ یہ چیز مضر صحت ہے اور اسے تلف کر دینا چاہئے تو اس کے مالک کو چھوڑنے کا کیا جواز ہے؟ اسے بھی ساتھ ہی گرفتار کر کے تھانے میں بند کیا جانا چاہئے اور اس کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ اگر آج سے ہی ایسا ہونا شروع ہو جائے تو بھی پاکستان کے عوام کو صحت مند اور ملاوٹ سے پاک اشیاءملنے میں ایک دہائی تو لگ سکتی ہے کیونکہ پاکستان کے کرپٹ مافیا کو یہ یقین ہے کہ ایسی کارروائیاں وقتی طور پر ہوتی ہیں چند دنوں بعد پھر وہی ڈھاک کے تین پات ہونگے۔ لیکن جب مسلسل کئی ملاوٹ کرنے والوں کو سزائیں ہوئیں تو شاید یہ لوگ سمجھ جائیں کہ اب دال نہیں گلے گی اور پھر شاید صحت مند پنجاب کا خواب بھی پورا ہوسکے۔ 


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے