انسان جب زندہ ہوتا ہے تو ہر کوئی اس کو زیر کرنے میں مصروف نظر آتا ہے اور اس کی قدر نام کی چیز نہیں ہوتی۔ کسی بھی انسان کی قدر اس وقت معلوم ہوتی ہے جب وہ دنیا سے کوچ کر جاتا ہے۔ کتنے لوگ آئے کتنے لوگ گئے لیکن وقت اپنی رفتار کے ساتھ گزرتا جا رہا ہے۔ در حقیقت جب کوئی بھی انسان زندہ ہوتا ہے تو لوگوں کو اس میں صرف اور صرف برائیاں اور کمیاں نظر آتی ہیں دنیا کا یہی دستور ہے جب انسان زندہ ہوتا ہے تو کوئی منہ نہیں لگاتا جبکہ مرنے کے بعد سر پر بیٹھایا جاتا ہے بدقسمتی سے ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں قدر پانے کے لیے مرنا پڑتا ہے جب بندہ زندہ ہوتا ہے تو ہمیں اس کی خوشبو سے بھی بدبو آتی ہے اور مر جائے تو اس کے پسینے سے بھی خوشبو آنے لگ جاتی ہے، زندہ رہے تو شاید روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ ملے اور مرے تو اس کے قل و دسو یں پر انواع و اقسام کے کھا نے بنیں جب انسان زندہ ہوتا ہے تو اسکی اچھائیاں نظر نہیں آتیں جب انسان مر جاتا ہے تو ساری اچھائیاں نظر آنا شروع آ جاتی ہیں آگر قدر کرنی ہے تو زندہ کی کرو مرنے کے بعد تو قدر مل ہی جانی ہے جو بھوکا مر گیا اسکے مرنے کے بعد اسکے نام کی خیرات کی جاتی ہے جب انسان زندہ ہوتا ہے تو اسکے تن پے کپڑے ہیں یا نہیں کچھ نہیں دیکھا جاتا جب مر جاتا ہے تو اسکے نام کے غریب کو سوٹ دیے جاتے ہیں جب وہ زندہ ہوتا ہے تو اس وقت ایسا کیوں نہیں کیا جاتا کیا اسکے مرنے کا انتظار کیا جاتا ہے اگر اپنی قدر کروانا چاہتے ہو تو تجھے مرنا ہو گا یہی آج کی دنیا کا دستور ہے

0 تبصرے