دلہن آئی موت کے سائے میں ـــــ ضیاء صابری
شادی بیاہ کی خوشی کس کو نہیں ہوتی۔شادی والے گھر کی رونقیں اور خوشیاں قابل دید ہوتی ہیں۔ شادی لڑکے کی ہو یا لڑکی کی خوشی ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک شادی لاہور کی ایک نواحی بستی میں ہو رہی تھی۔ شادی والے گھر میں عید کا سا سماں تھا ۔ ابھی مہندی کی رسم ہی ادا ہو رہی تھی۔ لڑکیاں بالیاں زرق برق لباس پہنے ادھر ادھر گھوم رہی تھیں اور ایک دوسرے سے چہلیں کر رہی تھیں ۔ دولہا کے بھائی اور دوست دولہا کو گھیرے ہوئے تھے اور چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔ہر چہرے سے خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی۔ رشتہ دار اور دوست احباب جمع تھے۔ اتنے میں دولہا کے بھائی کو جوش آیا اور وہ اپنی خوشی کو دوچند کرنے کیلئے اندر سے کلاشنکوف اٹھا لایا اور تڑا تڑ فائرنگ شروع کر دی۔ نوجوان لڑکے اور دولہا کے دوسرے بھائی و دوست بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اور فائرنگ کر کے اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ بزرگ سب کچھ دیکھتے رہے اور اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر وہ بھی خوش ہوتے رہے۔ فائرنگ ہوتی رہی اور پھر اچانک بندوق کی نالی میں ایک گولی پھنس گئی۔ فائرنگ کرنے والے نے لاکھ کوشش کی کہ گولی نکل جائے مگر گولی ایسی پھنسی کہ نکلنے کا نام ہی نہ لیا۔ آخر کار اس نے بندوق کو زمین پر مارا تاکہ گولی نکل جائے۔ گولی تو نکل گئی مگر ایسی نکلی کہ پاس کھڑے پڑوسیوں کے ایک دس سالہ بچے کو جا لگی۔ گولی نزدیک سے چلی تھی سو وہ پیٹ سے لگ کر پیچھے سے باہر جا نکلی۔ بچے کی انتڑیاں باہر آ گئیں۔ شادی کی خوشیاں کافور ہو گئیں اور سب کو اس بچے کی جان کے لالے پڑ گئے۔ فوری طور پر بچے کو اٹھا کر ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے اس کا آپریشن کیا جس پر تقریباً ایک لاکھ روپے فوری طور پر خرچ ہو گیا۔ آپریشن مکمل ہو گیا بچہ کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا مگر پھر نجانے کیا ہوا کہ آپریشن کے تقریباً چھ گھنٹے بعدبچہ ہلاک ہو گیا۔ یوں ایک ہنستے بستے گھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ اور شادی کی خوشیاں ادھوری رہ گئیں۔
اس واقعے کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آجکل شادی بیاہ و دیگر تقریبات بسنت کے موقع پر یا ویسے ہی جوش وخروش میں ہوائی فائرنگ کا رواج بہت عام ہے۔ شادی میں فائرنگ نہ کی جائے تو نوجوان طبقہ شادی کو پھیکی اور بدمزہ قرار دے دیتا ہے۔ کسی زمانے میں شادی بیاہ کے موقع پر خاص طور پر بارات کے ساتھ آتش بازی کے گولے چلائے جاتے تھے۔ آجکل ان گولوں کے ساتھ ساتھ آتش بازی کے دوسرے مظاہرے بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اور ان سب سے زیادہ ضروری فائرنگ کو سمجھا جاتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے آخر کار ہو ا میں چلائی گئی گولیاں واپس زمین کی طرف لوٹتی ہیں جنہیں اندھی گولی کہا جاتا ہے۔ اخبارات میں آئے دن ایسے واقعات آتے رہتے ہیںجن میں اندھی گولی سے ہلاکتوں کا ذکر ہوتا ہے۔ فائرنگ کرنے والے آخر اپنی خوشی میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان کی یہ حرکت کسی کی جان بھی لے سکتی ہے۔ مذکورہ بالا واقعے جیسی ان گنت مثالیں ہمیں اکثر و بیشتر ملتی رہتی ہیں۔ ان مثالوں سے آخر ہم سبق کیوں نہیں سیکھتے۔ کیا فائرنگ کے بغیر دلہن گھر میں نہیں آ سکتی؟ یا شادی کی خوشیاں مکمل نہیں ہو سکتیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں نمود ونمائش کی جو دوڑ چل رہی ہے۔ یہ سب اسی کا کیا دھر ا ہے۔ ہم لوگ صرف اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور اپنی خوشیوں کو لوگوں پر ظاہر کرنے اور اپنی حیثیت کا رعب جمانے کیلئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ جس کے نتائج ہمیشہ خطرناک ہی نکلتے ہیں۔ ہمیں کیا حق ہے کہ ہم اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے کسی دوسرے کے گھر میں، یا ہو سکتا ہے اپنے ہی گھر میں صف ماتم بچھا دیںکہ گولی تو اندھی ہوتی ہے وہ اپنا پرایا نہیں دیکھتی۔ اس کے تو سامنے جو بھی آ جائے گا وہ اسی میں جا گھستی ہے۔ تو پھر ہم آخر اندھی تقلید کرتے ہوئے کس راہ پر جا رہے ہیں۔
پہلی ذمہ داری تو ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ایسی حرکتوں سے باز رہیں۔ جس سے کسی کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ ہمارے نزدیک تو آتش بازی بھی فضول رسم ہے۔۔ اس چیز کا دولہا یا دلہن یا ان کے خاندان والوں کو کیا فائدہ پہنچتاہے کوئی ہمیں بتا سکے تو ضرور بتائے۔ پھر یہ فائرنگ وغیرہ تو سراسرفضول اور خطرناک قسم کا فعل ہے۔ جس سے نقصان ہی نقصان ہے۔ دوسری ذمہ داری ہماری حکومت، انتظامیہ اور پولیس وغیرہ کی ہے، کہ وہ ایسی فضول، لغو اور بے معنی حرکات پر نوٹس کیوں نہیں لیتی۔ جس سے اکثر قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور ان کو محض ایک حادثہ قرار دے کر معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں انسان کی قدرو قیمت صرف اتنی ہی ہے۔
ہم اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر غیر جانبداری سے سوچیں تو ہر شخص ان رسومات کو فضول گردانے گا۔ تو پھر یہ سب رکتا کیوں نہیں ہے۔ کیا ہماری اسمبلیوں کا یہ فرض نہیں ہے کہ ایسی حرکات پر پابندی لگانے کیلئے اسمبلیوں میں قانون سازی کریں؟ کیا ہماری حکومت کا یہ فرض نہیں ہے کہ ایسے قوانین جن کے تحت ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے ان پر سختی سے عمل درآمد کروائے؟ کیا ہماری پولیس نے ایسے موقعوں پر فائرنگ کرنے والے نوجوانوں سے کبھی پوچھنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ آیا ان کا اسلحہ لائسنس یافتہ ہے کہ نہیں؟ یہاں تو یہ دیکھا گیا ہے کہ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہوتی ہے اور اسلحے کی نمائش پر پابندی ہوتی ہے مگر پھر بھی بارات کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے باراتی سر عام فائرنگ کر رہے ہوتے ہیں اور کوئی ان سے پوچھتا تک نہیں۔ آخر ہم کدھر جا رہے ہیں؟ کیا ہمارے ملک کا قانون موم کی ناک بن کر رہ گیا ہے۔ کیا ہم اپنے فرائض سے اس قدر غافل ہو گئے ہیں۔
میرے ہم وطنو! ذرا سوچیں کہ ان حرکات سے ہمیں کیا فائدہ ملتا ہے اور نقصان کیا؟ موازنہ کرنے سے بات خود بخود سمجھ میں آ جائے گی۔ اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو مذکورہ بالا واقعے کی طرح کسی حادثہ کا شکار ہو کر کسی مرنے والے کے والدین اور بہن بھائیوں سے جا کر پوچھیں اور سوچیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی دن ان کی جگہ ہم کھڑے ہوں اور جو سوال ہم ان سے کر رہے ہیں وہی کوئی اور ہم سے کر رہا ہو۔ پھر کیا ہو گا۔ کیا اس وقت بھی ہم ان رسومات کو جائز قرار دیں گے؟ اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے ان رسومات کو بند کریں اور پولیس اس پر سختی سے عمل کروائے ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ بھی ہماے ہاتھ نہ آئے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭
(مطبوعہ : : ہفت روزہ قصور آبزرور قصور 7 تا 13 اگست 1998 ئ)
0 تبصرے