شرعی قوانین میں نظر ثانی کی گنجائش نہیں
اللہ تعالیٰ نے امت محمدی کو ایک مکمل ضابطہ حیات اور ایک ابدی آئین قرآن مجید کی صورت میں عطا کیا ہے۔ یہ ایک مکمل اور غلطیوں سے مبرا قانون ہے۔ جس کو ہر مسلمان کو اپنی زندگی پر نافذ کرنا چاہئے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید کا ایک بھی لفظ ایسا نہیں جو مبہم ہو اور واضح اور صاف معنیٰ پیش نہ کرتا ہو۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس آخری کتاب کی حفاظت بھی خود اپنے ذمے لی ہے۔کیونکہ اس سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں امتوں نے اپنی مرضی اور منشاءکے مطابق تبدیلی کر لی۔ اور اسے اپنے ذہن اور مزاج کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انبیائے کرام علیہم السلام نے ان آسمانی کتابوں کے ذریعہ اور اپنے رب ذوالجلال کے حکم کے مطابق جو رشدوہدایت اپنی قوموں تک پہنچائی اس کا اثر زائل ہونا شروع ہو گیا۔ اور ایک وقت وہ آیا کہ وہ دوبارہ گمراہ ہو گئے۔اور پھر سے اللہ تعالیٰ کے احکام سے منحرف ہونے لگے۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ چونکہ اللہ جل شانہ‘ کے سب سے چہیتے محبوب اور آخری نبی ہیں او راس ناطے ان کی امت پر بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نظر عنایت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ خود بھی یہ نہیں چاہتے کہ امت محمدیہ گمراہ ہو۔ اس لئے اس امت کی ہدایت کے سر چشمہ کی حفاظت خود اپنے ذمہ لے لی۔ تاکہ منافق لوگ اسے اپنی مرضی سے تبدیل کر کے امت محمدیہ کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ یہ الگ بات کہ اس آئین اور ضابطہ حیات پر ہم عمل کس حد تک کرتے ہیں۔ کہ©©
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اس ضابطہ حیات میںزندگی کے ہر شعبے سے متعلق تمام قوانین حتمی اور ٹھوس شکل میں موجود ہیں اور جس اسلامی قانون کو نافذ کرنے کی باتیں ہم پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے ہی سنتے چلے آ رہے ہیں اور بد قسمتی سے ہم آج تک اس قانون کی شکل دیکھنے سے بھی محروم ہیں، نفاذ تو بہت دور کی بات ہے۔ سابق صدر ضیاءالحق مرحوم نے ایک ہلکی سی جھلک حدود آرڈیننس کی شکل میں دکھائی تھی جسے دیکھ کر ہم میں سے اکثر کی روح کانپ گئی تھی۔ پھرگذشتہ ۲۱ ربیع الاول کے موقع پر صدر پاکستان غلام اسحاق خان نے قصاص ودیت کا قانون نافذ کردیا۔ جس کا اہل ایمان کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا۔ اور خوشی کا اظہار بھی کیا گیا کہ چلو یکمشت نہ سہی بتدریج ہی سہی شرعی قوانین نافذ العمل ہونا شروع ہو گئے۔ مگر اس موقع پر بھی قوم کو ایک نئے تجربہ سے دوچار ہونا پڑا۔ ڈرائیوروں کی ہڑتال کی صورت میں عوام نے ایک بہت بڑے عذاب کا سامنا کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک ہمیشہ سے ہی شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ مگر جب پہلے مرحلے کے طور پر صرف ایک قانون شرع کے مطابق نافذ کیا گیا تو ہم چلا اٹھے۔ ہڑتال کرنے پر تل گئے۔ اور یہ بھی دیکھا گیا کہ جو لوگ اس قانون کی زد میں نہیں آتے تھے۔(یہاں میری مراد ڈرائیور طبقہ کے علاوہ دوسرے لوگ ہیں) وہ بھی اس قانون کو ظلم، زیادتی اور ناانصافی کے نام سے پکارنے لگے۔ یہ ہمارے ایمان کی کمزوری کی علامت نہیں ہے تو کیا ہے۔ قرآن پاک کا ایک ایک لفظ ہر مسلمان کیلئے حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے اور اس میں کسی قسم کے ردوبدل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔پھر مسلمانوں کی طرف سے قصاص ودیت کے قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہاں بات کے دو رخ سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ حاکم وقت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کوئی بھی قانون نافذ کرنے سے پیشتر قرآن و سنت کے احکام کا اچھی طرح جائزہ لے لے اور اگر ضرورت پڑے تو علمائے دین سے بھی مشورہ اور رائے لی جائے اور قرآنی احکام کو سامنے رکھ کر صحیح ،واضح اور ٹھوس الفاظ میں قانون کی تشریح کی جائے اور پھر اسے نافذ کیا جائے۔ اور جب یہ نافذ ہو جائے تو دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔ قانون نافذ العمل ہونے کے بعد عوام پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی پیروی اور احترام کریں۔ قانون کی پابندی کریں جو مملکت میں نافذ کیا گیا ہو۔ اور اس کے خلاف احتجاج اور چیخ و پکار سراسر قرآن پاک کے احکامات کے منافی ہے۔ کیونکہ شرعی قوانین کسی انسان کے بنائے ہوئے نہیں ہیں بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کے بارے میں کوئی مسلمان سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور شرعی قوانین میں نظر ثانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کہ نظر ثانی اس بات پر کی جاتی ہے جس کی صحت میں کوئی شک و شبہ ہو۔ جبکہ شرعی قوانین مکمل طور پر واضح ہیں۔ ان میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں
اب قصاص ودیت کے قانون میں ”عاقل“ کا جو لفظ شامل کیا گیا ہے یہ پہلے ہی کیا جانا چاہیے تھا۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ شرعی اور اسلامی قوانین کے نفاذ میں خاص طور پر احتیاط اور توجہ دے۔ اور خوب سوچ سمجھ کر قانون سازی کرے۔ کیونکہ شرعی قوانین میں نظر ثانی بالکل اسی زمرے میں آتی ہے جو کچھ قرآن پاک سے پہلے نازل ہونے والی دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ ان کی قومیں کرتی آئی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نظر ثانی کا مطلب یہ کہ قرآن کے الفاظ کے مفہوم کو توڑ مروڑ کر اور تبدیل کر کے پیش کیا جائے کہ یا تو نفاذ کے وقت معنی تبدیل کئے گئے یا پھر نظر ثانی کے بعد سامنے آنے والی صورت تبدیل شدہ ہے اور یہ دونوں صورتیں ہی غلط ہیں بلکہ ایک لحاظ سے گناہ کے زمر ے میں آتی ہیں۔ حکومت پاکستان کے چاہئے کہ خاص احتیاط برتتے ہوئے اس چیز سے بچے کہ وہ خدا نخواستہ قرآنی احکامات میں تبدیلی کی مرتکب ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭
(مطبوعہ : روزنامہ ”نوائے آسمان“ 26 نومبر1990 ئ)
0 تبصرے