میں نے یہی دیکھا ہے کہ ہم اپنی انا اپنی ذات اور اپنی بات کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور دوسروں کی بات کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے دوسرے کی بات سننا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ اگنور کر دیتے ہیں ہم یہ سمجھتے ہیں ہم جو کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے پائیدار ہے اور دوسرا جو کہتا ہے وہ ٹھیک نہیں اور اس میں کوئی پائیداری نہیں ہماری اس انا کی وجہ سے اکثر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ختم ہو جاتے ہیں اور ہم سے دور چلے جاتے ہیں میری نظر میں انا تو یہ ہے کہ ہم دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں اپنی ہمت سے اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش کریں دوسروں پر انحصار نہ کریں غلط کام نہ کریں اور غلط بات کو کبھی نہ مانیں غلط کام اور غلط بات سے انکار کر دیں آج کے دور میں ہم انا کو کچھ اور ہی سمجھ بیٹھے ہیں میں نے یہی دیکھا ہے ہر کوئی جھوٹی انا لیے پھر رہا ہے دوسروں پر انحصار کیا جا رہا ہے دوسرے کو مطلب کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے غلط ٹھیک میں تمیز بالکل بھی نہیں کی جارہی ہے چھوٹا ہو یا بڑا کوئی بھی جھکنے کے لیے تیار نہیں اور اپنی غلطی کو ماننے کو بالکل بھی تیار نہیں ہے ہم ایک معمولی سی بات کو ہم اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور معافی مانگنا تو دور کی بات ایک دوسرے کو دیکھنا اور ایک دوسرے کو ملنا بھی پسند نہیں کرتے انسان کے رویوں میں اگر لچک برقرار نہ رہے تو وہ انا پسند ہو جاتا ہے۔ اور وہ اس انا کو قابو میں نہیں رکھ سکتا اور انا اس پر حاوی ہو جاتی ہے اور پھر اسے برباد کر کے دم لیتی ہے جب انسان انا میں قید ہو جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے اور انا پرست بن جاتا ہے آتے ہوئے اذان ہوتی ہے اور جاتے ہوئے نماز یہ ہے اوقات انسان کی اور یہ ہے انا اور غرور۔
تحریر:شاہدرشید


0 تبصرے